(1) بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے۔ اور بعض نے جنس نجوم هَوَى، اوپر سے نیچے گرنا، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لیے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔
(1) یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبُكُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی ﹲ کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نےتمہارے ساتھ اور تمھارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روزکے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق و کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کےکردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوایت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔
(1) یعنی وہ گمراہ یا بہک کس طرح سکتا ہے، وہ تو وحی الٰہی کے بغیر لب کشائی ہی نہیں کرتا، حتیٰ کہ مزاح اور خوش طبعی کےموقعوں پر بھی آپ ﹲ کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔ (سنن الترمذي، أبواب البر، باب ما جاء في المزاح) اسی طرح حالت غضب میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی بات خلاف واقعہ نہ نکلتی (أبو داود، كتاب العلم، باب في كتاب العلم)۔
(1) بعض نےترجمہ کیا ہے، دو ہاتھوں کے بقدر، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل (عليه السلام) کی باہمی قربت کابیان ہے۔ اللہ تعالیٰ اور نبی ﹲ کی قربت کا اظہار نہیں ہے، جیساکہ بعض لوگ باورکراتے ہیں۔ آیات کے سیاق سے صاف واضح ہے کہ اس میں صرف جبرائیل (عليه السلام) اور پیغمبر کا بیان ہے۔ اسی قربت کے موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل (عليه السلام) کو ان کی اصل شکل میں دیکھا اور یہ بعثت کے ابتدائی ادوار کا واقعہ ہے جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا، دوسری مرتبہ اصل شکل میں معراج کی رات دیکھا۔
(1) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل (عليه السلام) کو اصل شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ ایک پر مشرق ومغرب کے درمیان فاصلے جتنا تھا، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے جھٹلایا نہیں، بلکہ اللہ کی اس عظیم قدرت کو تسلیم کیا۔
(1) یہ لیلہ المعراج کوجب اصل شکل میں جبرائیل (عليه السلام) کو دیکھا، اس کا بیان ہے۔ یہ سدرہ المنتہیٰ،ایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور یہ آخری حد ہے، اس سے اوپر کوئی فرشتہ نہیں جاسکتا۔ فرشتے اللہ کے احکام بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں۔
(1) سدرۃ المنتہیٰ کی اس کیفیت کابیان ہے جب شب معراج میں آپ ﹲ نے اس کامشاہدہ کیا، سونے کے پروانے اس کےگرد منڈلا رہے تھے، فرشتوں کا عکس اس پر پڑ رہاتھا، اور رب کی تجلیات کا مظہر بھی وہی تھا۔ (ابن کثیر وغیرہ) اسی مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزوں سے نوازا گیا۔ پانچ وقت کی نمازیں، سورۂ بقرہ کی آخری آیات اور اس مسلمان کی مغفرت کا وعدہ جو شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب ذكر سدرة المنتهى)۔
(1) یہ مشرکین کی تو بیخ کے لیے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ توشان ہے جومذکور ہوئی کہ جبرائیل (عليه السلام) جیسے عظیم فرشتوں کا وہ خالق ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اس کے رسول ہیں، جنہیں اس نے آسمانوں پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ بھی کروایا اور وحی بھی ان پر نازل فرماتا ہے۔ کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو، ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں؟ اس ضمن میں عرب کے تین مشہور بتوں کے نام بطور مثال لیے۔ لاَتٌ، بعض کے نزدیک یہ لفظ اللہ سے ماخوذ ہے، بعض کے نزدیک لاتَ يَلِيتُ سے ہے، جس کے معنی موڑنے کے ہیں، پجاری اپنی گردنیں اس کی طرف موڑتے اور اس کا طواف کرتے تھے۔ اس لیے یہ نام پڑ گیا۔ بعض کہتےہیں کہ، لات میں تامشدد ہے۔ لَتَّ يَلُتُّ سے اسم فاعل (ستو گھولنے والا) یہ ایک نیک آدمی تھا، حاجیوں کو ستو گھول گھول کرپلایا کرتا تھا، جب یہ مر گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کو عبادت گاہ بنا لیا، پھر اس کے مجسمے اور بت بن گئے۔ یہ طائف میں بنو ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا۔ عُزَّى کہتےہیں کہ یہ اللہ کے صفاتی نام عَزِيزٌ سے ماخوذ ہے، اور یہ أَعَزُّ کی تانیث ہے بمعنی عَزِيزَةٍ بعض کہتے ہیں کہ یہ غطفان میں ایک درخت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ شیطاننی (بھوتنی) تھی جوبعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سنگ ابیض تھا جس کو پوجتے تھے۔ یہ قریش اور بنو کنانہ کا خاص معبود تھا۔ مَنَاة مَنَى يَمْنِي سے ہے جس کے معنی صَبَّ (بہانے) کے ہیں اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے لوگ کثرت سے اس کے پاس جانور ذبح کرتے اور ان کا خون بہاتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا (فتح القدیر) یہ قدید کے بالمقابل مشلل جگہ میں تھا، بنو خزاعہ کا یہ خاص بت تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس بت کا طواف بھی کرتے تھے۔ (ایسر التفاسیر وابن کثیر) ان کے علاوہ مختلف اطراف میں اور بھی بہت سے بت اور بت خانے پھیلے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اور دیگر مواقع پر ان بتوں اور دیگر تمام بتوں کا خاتمہ فرما دیا۔ ان پر جو قبے عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ وہ مسمار کروا دیں، ان درختوں کو کٹوا دیا، جن کی تعظیم کی جاتی تھی اور وہ تمام آثار ومظاہر مٹا ڈالے گئے جو بت پرستی کی یادگار تھے، اس کام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد، حضرت علی، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت جریر بن عبداللہ البجلی وغیرھم (رضي الله عنهم) کو، جہاں جہاں یہ بت تھے، بھیجا اور انہوں نے جاکر ان سب کوڈھا کر سرزمین عرب سے شرک کا نام مٹا دیا۔ (ابن کثیر) قرون اولی ٰکے بہت بعد ایک مرتبہ پھر عرب میں شرک کے یہ مظاہر عام ہو گئے تھے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجدد الدعوۃ شیخ محمد بن عبدالوہاب کو توفیق دی، انہوں نے درعیہ کے حاکم کواپنے ساتھ ملا کر قوت کے ذریعے سے ان مظاہر شرک کا خاتمہ فرمایا اوراسی دعوت کی تجدید ایک مرتبہ پھر سلطان عبدالعزیز والی نجد وحجاز (موجودہ سعودی حکمرانوں کے والد اور اس مملکت کے بانی) نے کی اور تمام پختہ قبروں اور قبوں کو ڈھا کر سنت نبوی ﹲ کااحیاء فرمایااور یوں الحمد للہ اب پورے سعودی عرب میں اسلام کے احکام کے مطابق نہ کوئی پختہ قبر ہے اور نہ کوئی مزار۔
(1) یعنی فرشتے، جو اللہ کی مقرب ترین مخلوق ہیں، ان کوبھی شفاعت کا حق صرف انہی لوگوں کے لیے ملے گا جن کے لیے اللہ پسند کرے گا، جب یہ بات ہے تو پھر پتھر کی مورتیاں کس طرح کسی کی شفارش کر سکیں گی؟ جن سےتم آس لگائے بیٹھے ہو، نیز اللہ تعالیٰ مشرکوں کے حق میں کسی کو شفارش کرنےکا حق بھی کب دے گا، جب کہ شرک اس کے نزدیک ناقابل معافی ہے؟