Përkthimi i kuptimeve të Kuranit Fisnik - Përkthimi në gjuhën urdu - Muhamed Xhonakri

Numri i faqes:close

external-link copy
21 : 32

وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ۟

بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب(1) اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں.(2) info

(1) عذاب ادنیٰ (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں۔ بعض کےنزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے، جس سے جنگ بدر میں کافر دوچار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔
(2) یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر وشرک اور معصیت سے باز آجائیں۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 32

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا ؕ— اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ ۟۠

اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر(1) بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں. info

(1) یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان واطاعت کی موجب ہیں، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 32

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ فَلَا تَكُنْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآىِٕهٖ وَجَعَلْنٰهُ هُدًی لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۟ۚ

بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک(1) نہ کرنا چاہئے اور ہم نے اسے(2) بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا. info

(1) کہا جاتا ہے کہ یہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی (صلى الله عليه وسلم) اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھا۔
(2) (اسے) سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ (عليه السلام) ۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 32

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ؕ۫— وَكَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ۟

اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وه ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے.(1) info

(1) اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے۔ صبر کا مطلب ہے اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور ترک زواجر میں اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے اتباع میں جو تکلیفیں آئیں، انہیں خندہ پیشانی سے جھیلنا۔ اللہ نے فرمایا، ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب انہوں نے اس کے برعکس تبدیل وتحریف کا ارتکاب شروع کر دیا، تو ان سے یہ مقام سلب کر لیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر ان کا عمل صالح رہا اور نہ ان کا اعتقاد صحیح۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 32

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ۟

آپ کا رب ان (سب) کے درمیان ان (تمام) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وه اختلاف کر رہے ہیں.(1) info

(1) اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو اہل کتاب میں باہم برپا تھا، ضمناً وہ اختلافات بھی آجاتے ہیں۔ جو اہل ایمان اور اہل کفر، اہل حق اور اہل باطل اور اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان دنیا میں رہے اور ہیں چونکہ دنیا میں تو ہر گروہ اپنے دلائل پر مطمئن اور اپنی دگر پر قائم رہتا ہے۔ اس لئے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل کفر وباطل کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 32

اَوَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ ؕ— اَفَلَا یَسْمَعُوْنَ ۟

کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں(1) ۔ اس میں تو (بڑی) بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟ info

(1) یعنی پچھلی امتیں، جو تکذیب اور عدم ایمان کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ آج ان کا وجود دنیا میں نہیں ہے، البتہ ان کے مکانات ہیں جن کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں، مطلب اس سے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی یہی ہو سکتا ہے، اگر ایمان نہ لائے۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 32

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَی الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَاَنْفُسُهُمْ ؕ— اَفَلَا یُبْصِرُوْنَ ۟

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر (غیر آباد) زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں(1) ، کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے؟ info

(1) پانی سے مراد آسمانی بارش اور چشموں نالوں اور وادیوں کا پانی ہے، جسے اللہ تعالیٰ ارض جرز (بنجر اور بے آباد) علاقوں کی طرف بہا کر لے جاتا ہے اور اس سے پیداوار ہوتی ہے جو انسان کھاتے ہیں اور جو بھوسی یا چارہ ہوتا ہے، وہ جانور کھا لیتے ہیں۔ اس سے مراد کوئی خاص زمین یا علاقہ مراد نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ جو ہر بے آباد، بنجر اور چٹیل زمین کو شامل ہے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 32

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟

اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو (تو بتلاؤ).(1) info

(1) اس فیصلے (فتح) سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار مکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تیرے اللہ کی مدد تیرے لئے کب آئے گی؟ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ فی الحال تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ تجھ پر ایمان لانے والے چھپے پھرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 32

قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِیْمَانُهُمْ وَلَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ ۟

جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان ﻻنا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی.(1) info

(1) اس یوم الفتح سے مراد آخرت کے فیصلے کا دن ہے، جہاں ایمان مقبول ہوگا اور نہ مہلت دی جائے گی۔ فتح مکہ کا دن مراد نہیں ہے کیونکہ اس دن تو طلقاء کا اسلام قبول کر لیا گیا تھا، جن کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی۔ (ابن کثیر) طلقاء سے مراد، وہ اہل مکہ ہیں جن کو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فتح مکہ والے دن، سزا وتعزیر کے بجائے معاف فرما دیا تھا اور یہ کہہ کر آزاد کر دیا تھا کہ آج تم سے تمہاری پچھلی ظالمانہ کاروائیوں کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ چنانچہ ان کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 32

فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ ۟۠

اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں(1) اور منتظر رہیں(2)۔ یہ بھی منتظر ہیں.(3) info

(1) یعنی ان مشرکین سے اعراض کر لیں اور تبلیغ ودعوت کا کام اپنے انداز سے جاری رکھیں، جو وحی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف نازل کی گئی ہے، اس کی پیروی کریں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ» (سورة الأنعام: 106) ”آپ خود اس طریقت پر چلتے رہئے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے“۔
(2) یعنی اللہ کے وعدے کا کہ کب وہ پورا ہوتا ہے اور تیرے مخالفوں پر تجھے غلبہ عطا فرماتا ہے؟ وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔
(3) یعنی یہ کافر منتظر ہیں کہ شاید یہ پیغمبر ہی گردشوں کا شکار ہو جائے اور اس کی دعوت ختم ہو جائے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا اور آپ پر گردشوں کے منتظر مخالفوں کو ذلیل وخوار کیا یا ان کو آپ کا غلام بنا دیا۔

التفاسير: