Përkthimi i kuptimeve të Kuranit Fisnik - Përkthimi në gjuhën urdu - Muhamed Xhonakri

Numri i faqes:close

external-link copy
64 : 29

وَمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ؕ— وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ ۘ— لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۟

اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے(1) البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے(2)، کاش! یہ جانتے ہوتے.(3) info

(1) یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لئے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے، وہ ایک کھیل کود سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لئے شب روز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں، پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
(2) اس لئے ایسےعمل صالح کرنے چاہئے جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔
(3) کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے انکا علاج علم ہے، علم شریعت۔

التفاسير:

external-link copy
65 : 29

فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۚ۬— فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ ۟ۙ

پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں.(1) info

(1) مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس تناقض کو حضرت عکرمہ (رضي الله عنه) سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔ ان کے متعلق آیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص سے رب سے دعائیں کرو، اس لئےکہ یہاں اس کےعلاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رضي الله عنه) نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہاں سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اور اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیرت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد (صلى الله عليه وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا یعنی مسلمان ہو جاؤں گا، چنانچہ یہاں سے نجات پاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا (رضي الله عنه)۔ (ابن کثیر بحوالہ سیرت محمد بن اسحاق)

التفاسير:

external-link copy
66 : 29

لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ ۙۚ— وَلِیَتَمَتَّعُوْا ۥ— فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ۟

تاکہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے رہیں اور برتتے رہیں(1) ۔ ابھی ابھی پتہ چل جائے گا. info

یہ لام کئی ہے جو علت کے لئے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا، اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے متمتع ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ یہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف الہٰ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ بعض کے نزدیک یہ لام عاقبت کے لئے ہے، یعنی گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 29

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ؕ— اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ ۟

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حاﻻنکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں(1) ، کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں.(2) info

(1) اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہاہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل وغارت، اسیری، لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں، جب کہ عرب کے دوسرےعلاقے اس امن وسکون سے محروم ہیں قتل وغارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔
(2) یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا اقتضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کی تصدیق کرتے۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 29

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗ ؕ— اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًی لِّلْكٰفِرِیْنَ ۟

اور اس سے بڑا ﻇالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے(1) یا جب حق اس کے پاس آجائے وه اسے(2) جھٹلائے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا؟ info

(1) یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے دراں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے کہ میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ افتراہے اور مدعی مفتری۔
(2) یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب۔ افترا اور تکذیب دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
69 : 29

وَالَّذِیْنَ جٰهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ؕ— وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۟۠

اور جو لوگ ہماری راه میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں(1) ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے(2)۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے.(3) info

(1) یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں اور مشکلات پیش آتی ہیں۔
(2) اس سے مراد دنیا وآخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
(3) احسان کا مطلب ہے اللہ کوحاضر ناظر جان کر ہرنیکی کےکام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی (صلى الله عليه وسلم) کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے میں برائی کے بجائے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کےمفہوم میں شامل ہیں۔

التفاسير: