Ibisobanuro bya qoran ntagatifu - Ibisobanuro bya Qur'an Ntagatifu mu rurimi rw'igihurudu - Muhammad Jonakri.

numero y'urupapuro: 158:151 close

external-link copy
68 : 7

اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ۟

تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواه ہوں۔ info
التفاسير:

external-link copy
69 : 7

اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ ؕ— وَاذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ— فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۟

اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کاہے کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وه شخص تم کو ڈرائے اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیاده دیا(1) ، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو۔ info

(1) ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا «لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلادِ» (الفجر: 8) اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئی اپنی اسی قوت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر اس نے کہا «مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً» ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت زیادہ قوت والا ہے (حمٰ سجدۂ: ١٥ )

التفاسير:

external-link copy
70 : 7

قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ— فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۟

انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں(1) ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو۔(2) info

(1) آباواجداد کی تقلید، ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے ۔ قوم عاد نے بھی یہی دلیل پیش کی اور شرک کو چھوڑ کر، توحید کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے ۔
(2) جس طرح قریش نے بھی رسول (صلى الله عليه وسلم) کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا (الانفال: 32) ”اے اللہ! اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے“۔ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے ۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا یااللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ بہرحال قوم عاد نے اپنے پیغمبر حضرت ہود (عليه السلام) سے کہہ دیا، کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ جس عذاب سے وہ ڈراتا ہے، بھیج دے ۔

التفاسير:

external-link copy
71 : 7

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ ؕ— اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ؕ— فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ۟

انہوں نے فرمایا کہ بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب(1) اور غضب آیا ہی چاہتا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو(2) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرالیا ہے؟ ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی۔ سو تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ info

(1) رِجْسٌ کے معنی تو پلیدی کے ہیں ۔ لیکن یہاں یہ مقلوب (بدلا ہوا) ہے رِجْزٌ سے ۔ جس کے معنی عذاب کے ہیں ۔ یا پھر رِجْسٌ یہاں ناراضی اور غضب کے معنی میں ہے۔ (ابن کثیر)
(2) اس سے مراد وہ نام ہیں جو انہوں نے اپنے معبودوں کے رکھے ہوئے تھے، مثلاً صَدَا، صُمُودٌ، هَبَ ۔ وغیرہ جیسے قوم نوح کے پانچ بت تھے جن کے نام اللہ نےقرآن میں ذکر کئے ہیں جیسے مشرکین عرب کے بتوں کے نام تھے۔ لاتٌ، عُزَّى، مَنَاتٌ، هُبَلٌ وغیرہ یا جیسے آج کل کے مشرکانہ عقائد واعمال میں ملوث لوگوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ۔ مثلاً داتا گنج بخش، خواجہ غریب نواز، بابا فرید گنج، مشکل کشا وغیرہ جن کے معبود یا مشکل کشا وگنج بخش وغیرہ ہونے کی کوئی دلیل ان لوگوں کے پاس نہیں ہے ۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 7

فَاَنْجَیْنٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۟۠

غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی، جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وه ایمان ﻻنے والے نہ تھے۔(1) info

(1) اس قوم پر بادتند کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل جاری رہا، جس نے ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور یہ قوم عاد کے لوگ، جنہیں اپنی قوت پربڑا ناز تھا، ان کے لاشے کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پر پڑے نظر آتے تھے ۔( دیکھئے سورۂ الحاقہ: 6۔ 8، سورۂ ھود: 53۔ 56، سورۂ احقاف: 24 ۔ 25، وغیرھا من الآیات)

التفاسير:

external-link copy
73 : 7

وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ— قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ— قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ؕ— هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

اور ہم نے ﺛمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا(1) ۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے۔ info

(1) یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے۔ ٩جری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے صحابہ (رضي الله عنهم) کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ (رضي الله عنهم) سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو ( صحيح بخاري ، كتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف، صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين ) ان کی طرف حضرت صالح (عليه السلام) نبی بناکر بھیجے گئے ۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے ہم نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ حضرت صالح (عليه السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انہیں تاکید کردی گئی، کہ اسی بری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے ۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن انہیں چنگھاڑا (صَيْحَةٌ ۔ سخت چیخ اور رَجْفَةٌ ۔ زلزلہ ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔

التفاسير: