Ibisobanuro bya qoran ntagatifu - Ibisobanuro bya Qur'an Ntagatifu mu rurimi rw'igihurudu - Muhammad Jonakri.

numero y'urupapuro: 152:151 close

external-link copy
23 : 7

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا ٚ— وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۟

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔(1) info

(1) توبہ واستغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (عليه السلام) نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورۂ بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے۔ (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا۔ نتیجتاً وہ راندۂ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم (عليه السلام) نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ”دلائل“ کے انبار فراہم کرنا، شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت ہوکر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا، بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔ اللَّهُمَّ! اجْعَلْنَا مِنْهُمْ۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 7

قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ— وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ۟

حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔ info
التفاسير:

external-link copy
25 : 7

قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَفِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ ۟۠

فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے۔ info
التفاسير:

external-link copy
26 : 7

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِیْشًا ؕ— وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ۙ— ذٰلِكَ خَیْرٌ ؕ— ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ۟

اے آدم (علیہ السلام) کی اوﻻد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے(1) اور تقوے کا لباس(2)، یہ اس سے بڑھ کر ہے(3)۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔ info

(1) ”سَوْآتٌ“ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے۔ جیسے شرم گاہ اور ”رِيشًا“ وہ لباس جو حسن ورعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تکملہ واضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔
(2) اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح، خشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریباً ایک ہے کہ ایسا لباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔
(3) اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے۔ تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد وورع اور تقویٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (صلى الله عليه وسلم) یہ دعا پڑھا کرتے تھے ”الْحَمْدُ للهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي“ (ترمذي ، أبواب الدعوات - ابن ماجه ، كتاب اللباس ، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس سے میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں“۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 7

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ؕ— اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ؕ— اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟

اے اوﻻد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو(1) ۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں ﻻتے۔(2) info

(1) اس میں اہل ایمان کو شیطان اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے ڈرایا گیا ہے کہ کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں بھی اس طرح فتنے اور گمراہی میں نہ ڈال دے جس طرح تمہارے ماں باپ (آدم و حوا) کو اس نے جنت سے نکلوﺍ دیا اور لباس جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ تو اس سے بچنے کا اہتمام و فکر بھی زیادہ ہونی چاہئے۔
(2) یعنی بے ایمان قسم کے لوگ ہی اس کے دوست اور اس کے خاﺹ شکار ہیں۔ تاہم اہل ایمان پر بھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو شرک خفی (ریاکاری) اور شرک جلی میں ہی ان کو مبتلا کر دیتا ہے اور یوں ان کو بھی ایمان کے بعد ایمان صحیح کی پونجی سے محروم کر دیتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 7

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَاللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا ؕ— قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ؕ— اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۟

اور وه لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟(1) info

(1) اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کرکے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہمیں ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لئے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، صرف شرم گاہ پر کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرمناک فعل کے لئے دو عذر انہوں نے اور پیش کئے۔ ایک تو یہ کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اس طرح ہی کرتے پایا ہے۔ دوسرا، یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دے ؟ یعنی تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ اس آیت میں ان مقلدین کے لئے بڑی زجر و توبیخ ہے جو آباپرستی، پیرپرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں، جب انہیں بھی حق کی بات بتلائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر وشیخ کا یہی حکم ہے۔ یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
29 : 7

قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ ۫— وَاَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ؕ۬— كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ ۟ؕ

آپ کہہ دیجیئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا(1) اور یہ کہ تم ہر سجده کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو(2) اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔ تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوباره پیدا ہوگے۔ info

(1) انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک ”لا إِلَهَ إِلا اللهُ“ یعنی توحید ہے۔
(2) امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ”اپنی نمازوں میں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو“ اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص للہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 7

فَرِیْقًا هَدٰی وَفَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلٰلَةُ ؕ— اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ۟

بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ﺛابت ہوگئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے اور خیال رکھتے ہیں کہ وه راست پر ہیں۔ info
التفاسير: