(1) یہ مال فیء کے مستحقین کی تیسری قسم ہے، یعنی صحابہ (رضي الله عنهم) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے۔ اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقویٰ آگئے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار ومہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے «إِنَّ الرَّافِضِيَّ الَّذِي يَسُبُّ الصَّحَابَةَ لَيْسَ لَهُ فِي مَالِ الْفَيْءِ نَصِيبٌ لِعَدَمِ اتِّصَافِهِ بِمَا مَدَحَ اللهُ بِهِ هَؤُلاءِ فِي قُلُوبِهِمْ» ”رافضی کو جو صحابہ کرام (رضي الله عنهم) پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں“۔ (ابن کثیر) اور حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں۔ «أُمِرْتُمْ بِالاسْتِغْفَارِ لأَصْحَابِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَبْتُمُوهُمْ! سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ يَقُولُ : ”لا تَذْهَبُ هَذِهِ الأمَّةُ حَتَّى يَلْعَنَ آخِرُهَا أَوَّلَهَا .... »(رواه البغوي) ”تم لوگوں کو اصحاب محمد (صلى الله عليه وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا۔ مگر تم نے ان پر لعن طعن کی۔ میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں“۔ (حوالۂ مذکور)
(1) جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ منافقین نے بنو نضیر کو یہ پیغام بھیجا تھا۔
(2) چنانچہ ان کا جھوٹ واضح ہوکر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلاوطن کر دیئے گئے ، لیکن یہ ان کی مدد کو پہنچے نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔
(1) یہ منافقین کے گزشتہ جھوٹے وعدوں ہی کی مزید تفصیل ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بنو نضیر، جلاوطن اور بنو قریظہ قتل اور اسیر کیے گئے، لیکن منافقین کسی کی مدد کو نہیں پہنچے۔
(2) یہ بطور فرض، بات کی جارہی ہے، ورنہ جس چیز کی نفی اللہ تعالیٰ فرما دے، اس کا وجود کیوں کر ممکن ہے، مطلب ہے کہ اگر یہود کی مدد کرنے کا ارادہ کریں۔
(3) یعنی شکست کھا کر۔
(4) مراد یہود ہیں، یعنی جب ان کے مددگار منافقین ہی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے تو یہود کس طرح منصور وکامیاب ہوں گے؟ بعض نے اس سے مراد منافقین لیے ہیں کہ وہ مدد نہیں کیے جائیں گے ، بلکہ اللہ ان کو ذلیل کرے گا اور ان کا نفاق ان کے لیے نافع نہیں ہوگا۔
(1) یہود کے یا منافقین کے یا سب کے ہی دلوں میں۔
(2) یعنی تمہارا یہ خوف ان کے دلوں میں ان کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر یہ سمجھدار ہوتے تو سمجھ جاتے کہ مسلمانوں کا غلبہ وتسلط، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لیے ڈرنا اللہ تعالیٰ سے چاہیے نہ کہ مسلمانوں سے۔
(1) یعنی یہ منافقین اور یہودی مل کر بھی کھلے میدان میں تم سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ قلعوں میں محصور ہو کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر تم پر وار کرسکتے ہیں، جس سے یہ واضح ہے کہ یہ نہایت بزدل ہیں اور تمہاری ہیبت سے لرزاں وترساں ہیں۔
(2) یعنی آپس میں یہ ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں۔ اس لیے ان میں باہم تو تکار اور تھکا فضیحتی عام ہے۔
(3) یہ منافقین کا آپس میں دلوں کا حال ہے۔ یا یہود اور منافقین کا، یا مشرکین اور اہل کتاب کا۔ مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں یہ ایک نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے دل ایک نہیں ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد سے بھرے ہوئے۔
(4) یعنی یہ اختلاف اور تشتت ان کی بےعقلی کی وجہ سے ہے، اگر ان کے پاس سمجھنے والی عقل ہوتی تو یہ حق کو پہچان لیتے اور اسے اپنا لیتے۔
(1) اس سے بعض نے مشرکین مکہ مراد لیے ہیں، جنہیں غزوۂ بنی نضیر سے کچھ عرصہ قبل جنگ بدر میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ یعنی یہ بھی مغلوبیت اور ذلت میں مشرکین ہی کی طرح ہیں جن کا زمانہ قریب ہی ہے۔ بعض نے یہود کے دوسرے قبیلے بنو قینقاع کو مراد لیا ہے جنہیں بنو نضیر سے قبل جلاوطن کیا جاچکا تھا، جو زمان ومکان دونوں لحاظ سے ان کے قریب تھے۔ (ابن کثیر)۔
(2) یعنی یہ وبال جو انہوں نے چکھا، یہ تو دنیا کی سزا ہے ، آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے جو نہایت درد ناک ہوگی۔
(1) یہ یہود اور منافقین کی ایک اور مثال بیان فرمائی کہ منافقین نے یہودیوں کو اسی طرح بے یار ومددگار چھوڑ دیا، جس طرح شیطان انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، پہلے وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے اور جب انسان شیطان کے پیچھے لگ کر کفر کا ارتکاب کر لیتا ہے تو شیطان اس سے براءت کا اظہار کر دیتا ہے۔
(2) شیطان اپنے اس قول میں سچا نہیں ہے، مقصد صرف اس کفر سے علیحدگی اور براءت ہے جو انسان شیطان کے گمراہ کرنے سے کرتا ہے۔