Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri

Puslapio numeris:close

external-link copy
25 : 57

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ— وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۟۠

یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا(1) تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا(2) جس میں سخت ہیبت وقوت ہے(3) اور لوگوں کے لیے اور بھی (بہت سے) فائدے ہیں(4) اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے(5)، بیشک اللہ قوت واﻻ اور زبردست ہے.(6) info

(1) میزان سے مرد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنےکا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کاﺗرجمہ ترازو کیا ہے،ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے، ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔
(2) یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بےشمار چیزیں بنتی ہیں، یہ سب اللہ کے اس الہام اور ارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کوکیا ہے۔
(3) یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں۔ جیسے تلوار، نیزہ، بندوق اور اب ایٹم، توپین،جنگی جہاز، آبدوزیں، گنیں، راکٹ اورٹینک وغیرہ بیشمار چیزیں۔ جن سے دشمن پروار بھی کیا جاتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔
(4) یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ لوہے سے اوربھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں، جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام میں آتی ہیں، جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، ہتھوڑا، سوئی، زراعت، نجارت (بڑھئی) اورعمارت وغیرہ کا سامان اورچھوٹی بڑی بےشمار مشینیں اورسازوسامان۔
(5) یہ ليِقَوُمَ پر عطف ہے۔ یعنی رسولوں کواس لیے بھی بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر، ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
(6) اس کو اس بات کی حاجت نہیں ہے کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسولوں کی مدد کریں، بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرمادے۔ لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی ہی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے، تاکہ اس طرح وہ اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت ورحمت کے مستحق بن جائیں۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 57

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ— وَكَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۟

بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا اور ہم نے ان دونوں کی اوﻻد میں پیغمبری اور کتاب جاری رکھی تو ان میں سے کچھ تو راه یافتہ ہوئے اور ان میں سے اکثر بہت نافرمان رہے. info
التفاسير:

external-link copy
27 : 57

ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤی اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ۙ۬— وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ؕ— وَرَهْبَانِیَّةَ ١بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا ۚ— فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ ۚ— وَكَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۟

ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا(1) ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا(2) تھا سوائے اللہ کی رضاجوئی کے(3)۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی(4)، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان ﻻئے تھے۔ انہیں ان کا اجر دیا(5) اور ان میں زیاده تر لوگ نافرمان ہیں. info

(1) رَأْفَةٌ کےمعنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سےمراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے حواری ہیں۔ یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دیے۔ جیسے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) ایک دوسرے کے لیے رحیم وشفیق تھے۔ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ - یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے پیروکار تھے۔
(2) رَهْبَانِيَّةٌ، رَهْبٌ (خوف) سے ہے یا رُهْبَانٌ (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں ”رے“ پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں ”رے“ پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحراء میں جا کر اللہ کی عبادت کرنا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نےتورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نےقبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جس کی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن ان کے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کو اندھی تقلید میں اس شہربدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبدوں میں محبوس کر لیا اور اس کے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قراردے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔
(3) یہ پچھلی بات ہی کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کاﺣﻜﻢ نہیں دیا تھا۔
(4) یعنی ہم نے تو ان پر صرف رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لیے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہو گی۔
(5) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضاجوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔
(6) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 57

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟ۙ

اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان ﻻؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا(1) اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناه بھی معاف فرمادے گا، اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے. info

(1) یہ دگنا اجر ان اہل ایمان کو ملے گا جونبی ﹲ سے قبل پہلےکسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی ﹲ پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ (صحيح البخاري ، كتاب العلم ، باب تعليم الرجل أمته وأهله وصحيح مسلم ، كتاب الإيمان ، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہارکیا کہ انہیں دو گنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 57

لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۟۠

یہ اس لیے کہ اہل کتاب(1) جان لیں کہ اللہ کے فضل کے کسی حصہ پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ ہے وه جسے چاہے دے، اور اللہ ہے ہی بڑے فضل واﻻ. info

(1) لِئَلا میں لا زائد ہے اور معنی ہیں لِيَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَنَّهُمْ لا يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يَنَالُوا شَيْئًا مِنْ فَضْلِ اللهِ (فتح القدير)۔

التفاسير: