Kilniojo Korano reikšmių vertimas - Vertimas į urdu k. - Muchamed Džonakri

Puslapio numeris:close

external-link copy
4 : 57

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ؕ— یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا ؕ— وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ ؕ— وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۟

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی(1) ہو گیا۔ وه (خوب) جانتا ہےاس چیز کو جو زمین میں جائے(2) اور جو اس سے نکلے(3) اور جو آسمان سے نیچے آئے(4) اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے(5)، اور جہاں کہیں تم ہو وه تمہارے ساتھ ہے(6) اور جو تم کر رہے ہو اللہ دیکھ رہا ہے. info

(1) اسی مفہوم کی آیات سورۂ اعراف 54، سورۂ یونس ،3، اور الم السجدۃ،4 وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں۔ ان کےحواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔
(2) یعنی زمین میں بارش کےجو قطرے اور غلہ جات ومیوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں، ان کی کمیت وکیفیت کو وہ جانتا ہے۔
(3) جو درخت، چاہے وہ پھلوں کےہوں یا غلوں کے یا زینت وآرائش اور خوشبو والے پھولوں کے بوٹے ہوں، یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں، سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ» (سورة الأنعام :59) اور اللہ تعالیٰ ہی کےپاس ہیں تمام مخفی اشیا کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتاہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتاہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اورنہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔
(4) بارش، اولے، برف، تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔
(5) فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب إن الله لا ينام)۔
(6) یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں،رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہرجگہ ہروقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون سورۂ ھود:3۔ سورۂ رعد: 10 اور دیگر آیات میں بیان کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 57

لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— وَاِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۟

آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اور تمام کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
6 : 57

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ ؕ— وَهُوَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۟

وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے(1) اور سینوں کے بھیدوں کا وه پورا عالم ہے. info

(1) یعنی تمام چیزوں کا مالک وہی ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، ان میں تصرف فرماتا ہے، اس کے حکم وتصرف سے کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے اور کبھی دونوں برابر۔ اسی طرح کبھی سردی، کبھی گرمی، کبھی بہار اور کبھی خزاں۔ موسموں کا تغیر وتبدل بھی اس کے حکم ومشیت سے ہوتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 57

اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ ؕ— فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ ۟

اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا(1) ہے پس تم میں سے جو ایمان ﻻئیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ﺛواب ملے گا. info

(1) یعنی یہ مال اس سے پہلے کسی دوسرے کےپاس تھا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہارے پاس بھی یہ مال نہیں رہے گا، دوسرے اس کے وارث بنیں گے، اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا تو بعد میں اس کے وارث بننے والے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے تم سے زیادہ سعادت حاصل کر سکتے ہیں اور اگروہ اسے نافرمانی میں خرچ کریں گے تو تم بھی معاونت کے جرم میں ماخوذ ہو سکتے ہو۔ (ابن کثیر) حدیث میں آتا ہے کہ ”انسان کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ تیرا مال، ایک تو وہ ہے جو تو نے کھا پی کر فنا کر دیا، دوسرا وہ ہے جسے پہن کر بوسیدہ کر دیا اور تیسرا وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب دوسرے لوگوں کے حصے میں آئے گا“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزهد ومسند أحمد ،4 / 24)۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 57

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۚ— وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟

تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں ﻻتے؟ حاﻻنکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان ﻻنےکی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وه تو تم سے مضبوط عہد وپیمان بھی لے چکا ہے.(1) info

(1) ابن کثیر نے اخذ کافاﻋل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بعیت لی جو رسول ﹲ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) سے لیتے تھےکہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں سمع وطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کےنزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم (عليه السلام) کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر سورۃ الاعراف: 172 میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 57

هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ؕ— وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۟

وه (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وه تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نرمی کرنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
10 : 57

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْاؕ— وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰی ؕ— وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۟۠

تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں(1) ، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے(2)۔ ہاں بھلائی کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے(3) جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے. info

(1) فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مرادلیا ہے۔ بہرحال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کےلحاظ سے بھی کم ترتھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اورجہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بڑھتے چلے گئے اوران کی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئی۔ اس میں اللہ تعالی نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابرنہیں ہو سکتے۔
(2) کیونکہ پہلوں کا انفاق اورجہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل وعزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کےنزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اس لیے رسول اللہ ﹲ نے حضرت صدیق اکبر (رضي الله عنه) کواپنی زندگی اورموجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔
(3) اس میں وضاحت فرما دی کہ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے درمیان شرف وفضل میں تفاوت تو ضرور ہے لیکن تفاوت درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) ایمان واخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیساکہ بعض حضرات، حضرت معاویہ (رضي الله عنه) ،ان کے والد حضرت ابوسفیان (رضي الله عنه) اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر ان کی تنقیص واہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي میرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیےہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ (صحيح بخاري، وصحيح مسلم ، كتاب فضائل الصحابة)۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 57

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌ ۟

کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیده اجر ﺛابت ہو جائے.(1) info

(1) اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرنا۔ یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل واحسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔

التفاسير: