Fassarar Ma'anonin Alqura'ni - Fassarar Urdu - Muhammad Jonakiri

Lambar shafi:close

external-link copy
41 : 9

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۟

نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی(1) اور بھاری بھر کم ہو تو بھی، اور راه رب میں اپنی مال وجان سے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو۔ info

(1) اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں مثلًا انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر خوشی سے یا ناخوشی سے غریب ہو یا امیر جوان ہو یا بوڑھا پیادہ ہو یا سوار عیال دار ہو یا اہل و عیال کے بغیر۔ وہ پیش قدمی کرنے والوں میں سے ہو یا پیچھے لشکر میں شامل۔ امام شوکانی فرماتے ہیں آیت کا حمل تمام معافی پر ہو سکتا ہے، اس لئے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ 'تم کوچ کرو، چاہے نقل و حرکت تم پر بھاری ہو یا ہلکی'۔ اور اس مفہوم میں مذکورہ تمام مفاہیم آجاتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 9

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَلٰكِنْ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ ؕ— وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ۚ— یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ ۚ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۟۠

اگر جلد وصول ہونے واﻻ مال واسباب ہوتا(1) اور ہلکا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے(2) لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑ گئی۔ اب تو یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں قوت وطاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے، یہ اپنی جانوں کو خود ہی ہلاکت میں ڈال رہے ہیں(3) ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے۔ info

(1) یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جنہوں نے عذر اور معذرت کر کے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے اجازت لے لی تھی دراں حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہیں تھا۔ ”عَرَضٌ“ سے مراد جو دنیاوی منافع سامنے آئیں مطلب ہے مال غنیمت۔
(2) یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ شریک جہاد ہوتے۔ لیکن سفر کی دوری نے انہیں حیلے تراشنے پر مجبور کر دیا۔
(3) یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر۔ کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
43 : 9

عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ۚ— لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ ۟

اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے۔(1) info

(1) یہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں؟ اجازت دے دی۔ لیکن اس توبیخ میں بھی پیار کا پہلو غالب ہے، اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کر دی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ورنہ تحقیق کے بعد ضرورت مندوں کو اجازت دینے کی آپ کو اجازت حاصل تھی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ «فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ» ( النور -62) ”جب یہ لوگ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اجازت مانگیں، تو جس کو تو چاہے، اجازت دے دے“۔ جس کو چاہے کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس معقول عذر ہو، اسے اجازت دینے کا حق تجھے حاصل ہے۔

التفاسير:

external-link copy
44 : 9

لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ ۟

اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ویقین رکھنے والے تو مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے(1) ، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ info

(1) یہ مخلص ایمانداروں کا کردار بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ نہایت ذوق شوق کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
45 : 9

اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ ۟

یہ اجازت تو تجھ سے وہی طلب کرتے ہیں جنہیں نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت کے دن کا یقین ہے جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وه اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں۔(1) info

(1) یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھو ٹے حیلے تراش کر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کر لی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔
ملحوظہ: خیال رہے کہ اس جہاد میں شرکت کے معاملے میں مسلمانوں کی چار قسمیں تھیں۔
پہلی قسم: وہ مسلمان جو بلا تامل تیار ہوگئے۔ دوسرے، وہ جنہیں ابتداء تردد ہوا اور ان کے دل ڈولے، لیکن پھر جلد ہی اس تردد سے نکل آئے۔ تیسرے، وہ جو ضعف اور بیماری یا سواری اور سفر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے فی الواقع جانے سے معذور تھے اور جنہیں خود اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی تھی۔ (ان کا ذکر آیت 91- 92 میں ہے) چوتھی قسم، وہ جو محض کاہلی کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ اور جب نبی (صلى الله عليه وسلم) واپس آئے تو انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو توبہ اور سزا کے لئے پیش کردیا۔ ان کے علاوہ باقی منافقین اور ان کے جاسوس تھے، یہاں مسلمانوں کے پہلے گروہ اور منافقین کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کی باقی تین قسموں کا بیان آگے چل کر آئے گا۔

التفاسير:

external-link copy
46 : 9

وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّلٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ ۟

اگر ان کا اراده جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وه اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے(1) لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا(2) اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو۔(3) info

(1) یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔
(2) ”فَثَبَّطَهُمْ“ کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنا دیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ (3) یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔

التفاسير:

external-link copy
47 : 9

لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ ۚ— وَفِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ۟

اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے(1) بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے(2) ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں(3)، اور اللہ ان ﻇالموں کو خوب جانتا ہے۔ info

(1) یہ منافقین اگر اسلامی لشکر کے ساتھ شریک ہوتے تو غلط رائے اور مشورے دے کر مسلمانوں میں انتشار ہی کا باعث بنتے۔
(2) إِيضَاعٌ کے معنی ہوتے ہیں، اپنی سواری کو تیزی سے دوڑانا۔ مطلب یہ کہ چغل خوری وغیرہ کے ذریعے سے تمہارے اندر فتنہ برپا کرنے میں وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور فتنے سے مطلب اتحاد کو پارہ پارہ کر دینا اور ان کے مابین باہمی عداوت و نفرت پیدا کر دینا ہے۔
(3) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی جاسوسی کرنے والے کچھ لوگ مومنین کے ساتھ بھی لشکر میں موجود تھے جو منافقین کو مسلمانوں کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔

التفاسير: