(1) یعنی اس نے ایمان واطاعت سےاعراض ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلانے اور موسیٰ (عليه السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چنانچہ جادوگروں کو جمع کرکے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سےکرایا، تاکہ موسیٰ (عليه السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔
(1) یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے متمردین کےلئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کےعلاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا۔
(1) یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود زجر وتوبیخ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل ہے۔ کیا تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آسمان کے بنانے سے زیادہ مشکل ہے؟
(1) یہ حم السجدۃ:9 میں گزر چکا ہے کہ خَلَقَ ( پیدائش ) اور چیز ہے اور دَحَى( ہموار کرنا ) اور چیز ہے۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلی ہوئی لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہےاور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کےقابل بنانے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلاً زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے۔ جیسا کہ یہاں بھی آگے یہی بیان ہے۔
(1) یعنی کافروں کے سامنے کر دی جائے گی تاکہ وہ دیکھ لیں کہ اب ان کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں ہی اسے دیکھیں گے، مومن اسےدیکھ کر اللہ کا شکر کریں گے کہ اس نے ایمان اور اعمال صالحہ کی بدولت انہیں اس سے بچا لیا، اور کافر، جو پہلے ہی خوف ودہشت میں مبتلا ہوں گے، اسے دیکھ کر ان کے غم وحسرت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
(1) کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔
(2) یعنی نفس کو ان معاصی اور محارم کے ارتکاب سے روکتا رہا ہو جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا تھا۔
(1) یعنی آپ کا کام صرف انذار ( ڈرانا ) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ مَنْ يَخْشَاهَا اس لئے کہا کہ انذار وتبلیغ سے اصل فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، ورنہ انذار وتبلیغ کا حکم تو ہر ایک کے لئےہے۔
(1) عَشِيَّةً، ظہر سے لے کر غروب شمس تک اور ضحیٰ، طلوع شمس سے نصف النہار تک کے لئے بولا جاتا ہے۔ یعنی جب کافر جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو دنیا کی عیش وعشرت اور اس کےمزے سب بھول جائیں گے اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں پورا ایک دن بھی نہیں رہے۔ دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔