Fassarar Ma'anonin Alqura'ni - Fassarar Urdu - Muhammad Jonakiri

Lambar shafi:close

external-link copy
17 : 79

اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی ۟ؗۖ

(کہ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے.(1) info

(1) یعنی کفر ومعصیت اور تکبر میں حد سےتجاوز کر گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 79

فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤی اَنْ تَزَكّٰی ۟ۙ

اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے.(1) info

(1) یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسندکرتا ہےجس سے تیری اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہو جا۔

التفاسير:

external-link copy
19 : 79

وَاَهْدِیَكَ اِلٰی رَبِّكَ فَتَخْشٰی ۟ۚ

اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے.(1) info

(1) یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 79

فَاَرٰىهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰی ۟ؗۖ

پس اسے بڑی نشانی دکھائی.(1) info

(1) یعنی اپنی صداقت کے وہ دلائل پیش کئے جو اللہ کی طرف سے انہیں عطا کئے گئے تھے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے تھے۔ مثلاً ید بیضا اور عصا اور بعض کے نزدیک آیات تسعہ۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 79

فَكَذَّبَ وَعَصٰی ۟ؗۖ

تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی.(1) info

(1) لیکن ان دلائل ومعجزات کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور تکذیب ونافرمانی کےراستے پر وہ گامزن رہا۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 79

ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی ۟ؗۖ

پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے.(1) info

(1) یعنی اس نے ایمان واطاعت سےاعراض ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلانے اور موسیٰ (عليه السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چنانچہ جادوگروں کو جمع کرکے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سےکرایا، تاکہ موسیٰ (عليه السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 79

فَحَشَرَ ۫— فَنَادٰی ۟ؗۖ

پھر سب کو جمع کرکے پکارا.(1) info

(1) اپنی قوم کو، یا قتال ومحاربہ کے لئے اپنے لشکروں کو، یا جادوگروں کو مقابلے کے لئے جمع کیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ربوبیت اعلیٰ کا علان کیا۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 79

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰی ۟ؗۖ

تم سب کا رب میں ہی ہوں. info
التفاسير:

external-link copy
25 : 79

فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰی ۟ؕ

تو (سب سے بلند وباﻻ) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا.(1) info

(1) یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے متمردین کےلئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کےعلاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 79

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰی ۟ؕ۠

بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے.(1) info

(1) اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کےلئے تسلی اور کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نےگزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو ان کا انجام بھی فرعون کی طرح ہو سکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 79

ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ— بَنٰىهَا ۟۫

کیا تمہارا پیدا کرنا زیاده دشوار ہے یا آسمان کا(1) ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا. info

(1) یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود زجر وتوبیخ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل ہے۔ کیا تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آسمان کے بنانے سے زیادہ مشکل ہے؟

التفاسير:

external-link copy
28 : 79

رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا ۟ۙ

اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا.(1) info

(1) بعض نے سَمْكٌ کےمعنی چھت بھی کیے ہیں، ٹھیک ٹھاک کرنے کا مطلب، اسےایسی شکل وصورت میں ڈھالنا ہے کہ جس میں کوئی تفاوت، کجی، شگاف اور خلل باقی نہ رہے۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 79

وَاَغْطَشَ لَیْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا ۪۟

اسکی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو نکالا.(1) info

(1) أَغْطَشَ أَظْلَمَ أَخْرَجَ کا مطلب أَبْرَز َ اور نَهَارَهَا کی جگہ ضُحَاهَا اس لئے کہا کہ چاشت کا وقت سب سےاچھا اور عمدہ ہے۔ مطلب ہے کہ دن کو سورج کے ذریعے سے روشن بنایا۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 79

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا ۟ؕ

اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا.(1) info

(1) یہ حم السجدۃ:9 میں گزر چکا ہے کہ خَلَقَ ( پیدائش ) اور چیز ہے اور دَحَى( ہموار کرنا ) اور چیز ہے۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلی ہوئی لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہےاور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کےقابل بنانے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلاً زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے۔ جیسا کہ یہاں بھی آگے یہی بیان ہے۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 79

اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعٰىهَا ۪۟

اس میں سے پانی اور چاره نکالا. info
التفاسير:

external-link copy
32 : 79

وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا ۟ۙ

اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑ دیا. info
التفاسير:

external-link copy
33 : 79

مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ ۟ؕ

یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے (ہیں). info
التفاسير:

external-link copy
34 : 79

فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰی ۟ؗۖ

پس جب وه بڑی آفت (قیامت) آجائے گی. info
التفاسير:

external-link copy
35 : 79

یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی ۟ۙ

جس دن کہ انسان اپنے کیے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا. info
التفاسير:

external-link copy
36 : 79

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی ۟

اور (ہر) دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی.(1) info

(1) یعنی کافروں کے سامنے کر دی جائے گی تاکہ وہ دیکھ لیں کہ اب ان کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں ہی اسے دیکھیں گے، مومن اسےدیکھ کر اللہ کا شکر کریں گے کہ اس نے ایمان اور اعمال صالحہ کی بدولت انہیں اس سے بچا لیا، اور کافر، جو پہلے ہی خوف ودہشت میں مبتلا ہوں گے، اسے دیکھ کر ان کے غم وحسرت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 79

فَاَمَّا مَنْ طَغٰی ۟ۙ

تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی).(1) info

(1) یعنی کفر ومعصیت میں حد سے تجاوز کیاہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 79

وَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا ۟ۙ

اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی).(1) info

(1) یعنی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھا ہوگا اور آخرت کے لئے کوئی تیاری نہیں کی ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
39 : 79

فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰی ۟ؕ

اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے.(1) info

(1) اس کےعلاوہ اس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ جہاں وہ اس سے بچ کر پناہ لے لے۔

التفاسير:

external-link copy
40 : 79

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی ۟ۙ

ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے(1) سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا.(2) info

(1) کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔
(2) یعنی نفس کو ان معاصی اور محارم کے ارتکاب سے روکتا رہا ہو جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 79

فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی ۟ؕ

تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے.(1) info

(1) جہاں وہ قیام پذیر، بلکہ اللہ کا مہمان ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 79

یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا ۟ؕ

لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں.(1) info

(1) یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی ؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے وقوع کا صحیح وقت کیا ہے؟

التفاسير:

external-link copy
43 : 79

فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا ۟ؕ

آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟(1) info

(1) یعنی آپ کو اس کی بابت یقینی علم نہیں ہے، اس لئے آپ کا اس کو بیان کرنے سے کیا تعلق؟ اس کا یقینی علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔

التفاسير:

external-link copy
44 : 79

اِلٰی رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا ۟ؕ

اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے. info
التفاسير:

external-link copy
45 : 79

اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَا ۟ؕ

آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاه کرنے والے ہیں.(1) info

(1) یعنی آپ کا کام صرف انذار ( ڈرانا ) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ مَنْ يَخْشَاهَا اس لئے کہا کہ انذار وتبلیغ سے اصل فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، ورنہ انذار وتبلیغ کا حکم تو ہر ایک کے لئےہے۔

التفاسير:

external-link copy
46 : 79

كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا ۟۠

جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں.(1) info

(1) عَشِيَّةً، ظہر سے لے کر غروب شمس تک اور ضحیٰ، طلوع شمس سے نصف النہار تک کے لئے بولا جاتا ہے۔ یعنی جب کافر جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو دنیا کی عیش وعشرت اور اس کےمزے سب بھول جائیں گے اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں پورا ایک دن بھی نہیں رہے۔ دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔

التفاسير: