(1) بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لیے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔
(2) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں، اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے، مثلا صلۂ رحمی، قیدیوں کو آزاد کرنا، مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت۔ ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر وثواب مرتب نہیں ہوگا۔
(1) ایمان میں اگرچہ وحی محمدی یعنی قرآن پاک پر ایمان لانا بھی شامل ہے لیکن اس کی اہمیت اور شرف کو مزید واضح اور نمایاں کرنے کے لئے اس کا علیحدہ بھی ذکر فرما دیا۔
(2) یعنی ایمان لانے سے قبل کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرما دیں۔ جیسا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا بھی فرمان ہے کہ (اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے)۔ (صحيح الجامع الصغير لألباني)۔
(3) بَالَهُمْ : کے معنی أَمْرَهُمْ، شَاْنَهُمْ، حالھم، یہ سب متقارب المعنی ہیں۔ مطلب ہے کہ انہیں معاصی سے بچا کر رشد وخیر کی راہ پر لگا دیا، ایک مومن کے لئے اصلاح حال کی یہی سب سے بہتر صورت ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مال ودولت کے ذریعے سے ان کی حالت درست کر دی۔ کیونکہ ہر مومن کو مال ملتا بھی نہیں، علاوہ ازیں محض دنیوی مال اصلاح واحوال کا یقینی ذریعہ بھی نہیں، بلکہ اس سے فساد احوال کا زیادہ امکان ہے۔ اسی لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے کثرت مال کو پسند نہیں فرمایا۔
(1) ذَلِكَ، یہ متبدا ہے، یا خبر ہے متبدا محذوف کی أَيْ الأَمْرُ ذَلِكَ یہ اشارہ ہے ان وعیدوں اور وعدوں کی طرف جو کافروں اور مومنوں کے لئے بیان ہوئے۔
(2) تاکہ لوگ اس انجام سے بچیں جو کافروں کا مقدر ہے اور وہ راہ حق اپنائیں جس پر چل کر ایمان والے فوزوفلاح ابدی سے ہمکنار ہوں گے۔
(1) جب دونوں فریقوں کا ذکر کر دیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے کے بجائے۔ گردنیں مارنے کا حکم دیا، کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر)۔
(2) یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد، ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں، انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
(3) مَنٌّ کا مطلب ہے بغیر فدیہ کا لئے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب، کچھ معاوضہ لےکر چھوڑنا ہے، قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت، حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کےحق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کر لی جائے۔
(4) یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے، یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کرکےہتھیار رکھ دے یا اسلام غالب آجائے اور کفر کا خاتمہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ صورت حال نہ ہو جائے، کافروں کے ساتھ تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے، بعض کہتےہیں، یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کےکوئی صورت باقی نہیں ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے۔ اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے، کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے۔ قیدیوں میں سے جس کو یاسب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر)۔
(5) یا تم اسی طرح کرو، افْعَلُوا ذَلِك یا ذَلِكَ حُكْمُ الْكُفَّارِ۔
(6) مطلب کافروں کو ہلاک کرکے یا انہیں عذاب میں مبتلا کرکے۔ یعنی ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
(7) یعنی تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ وہ جان لے کہ تم میں سے اس کی راہ میں لڑنے والے کون ہیں؟ تاکہ ان کو اجر وثواب دے اور ان کے ہاتھوں سے کافروں کو ذلت وشکست سے دوچار کرے۔
(8) یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔
(1) یعنی جسے وہ بغیر رہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہوں گے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں نبی ﹲ نے فرمایا (قسم ہے اس ذات کی جس کےہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والےگھر کے راستوں کا اس سے کہیں زیادہ علم ہوگا، جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا)۔ (صحيح بخاري ، كتاب الرقاق ، باب القصاص يوم القيامة)۔
(1) اللہ کی مدد کرنے سے مطلب، اللہ کے دین کی مدد ہے۔ کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے۔ یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پرفتح وغلبہ عطا کرتا ہے۔ جیسے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) اجمعین اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے، وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا، انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔ جیسے دوسرےمقام پر فرمایا۔ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ (الحج: 40) اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے)۔
(2) یہ لڑائی کے وقت تَثْبِيتُ أَقْدَامٍ یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصر ومعونت سے۔ بعض کہتے ہیں اسلام، یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔
(1) یعنی قرآن اور ایمان کو انہوں نے ناپسند کیا۔
(2) اعمال سے مراد، وہ اعمال ہیں جو صورۃ اعمال خیر ہیں لیکن عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان پر اجر وثواب نہیں ملے گا۔
(1) جن کے بہت سے آثار ان کے علاقوں میں موجود ہیں۔ نزول قرآن کے وقت بعض تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور آثار موجود تھے، اس لئے انہیں چل پھر کر ان کے عبرت ناک انجام دیکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ شاید ان کو دیکھ کر ہی یہ ایمان لے آئیں۔
(2) یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم کفر سے باز نہ آئے تو تمہارے لئے بھی ایسی ہی سزا ہو سکتی ہے؟ اور گزشتہ کافر قوموں کی ہلاکت کی طرح، تمہیں بھی ہلاکت سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔
(1) چنانچہ جنگ احد میں کافروں کے نعروں کے جواب میں مسلمانوں نے جو نعرے بلند کیے۔ مثلاً اعْلُ هُبَلْ، اعْلُ هُبَلْ (ھبل بت کا نام بلند ہو) کے جواب میں اللهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، کافروں کے انہی نعروں میں سے ایک نعرے لَنَا الْعُزَّى وَلا عُزَّى لَكُمْ کے جواب میں مسلمانوں کا نعرہ تھا اللهُ مَوْلانَا وَلا مَوْلَى لَكُمْ (صحيح بخاري، غزوة أحد) ”اللہ ہمارا مدد گار ہے، تمہارا کوئی مددگار نہیں“۔