Translation of the Meanings of the Noble Qur'an - Urdu translation - Muhammad Junagarhi

Page Number:close

external-link copy
71 : 15

قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ۟ؕ

(لوط علیہ السلام نے) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیاں موجود ہیں.(1) info

(1) یعنی ان سے تم نکاح کر لو یا پھر اپنی قوم کی عورتوں کو اپنی بیٹیاں کہا، تم عورتوں سے نکاح کر لو یا جن کے حبالہ عقد میں عورتیں ہیں، وہ ان سے اپنی خواہش پوری کریں۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 15

لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ ۟

تیری عمر کی قسم! وه تو اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے.(1) info

(1) اللہ تعالیٰ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب فرما کر، ان کی زندگی کی قسم کھا رہا ہے، جس سے آپ کا شرف و فضل واضح ہے۔ تاہم کسی اور کے لئے اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی تو حاکم مطلق ہے، وہ جس کی چاہے قسم کھائے، اس سے کون پوچھنے والا ہے؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جس طرح شراب کے نشے میں دھت انسان کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ اپنی بد مستی اور گمراہی میں اتنے سرگرداں تھے کہ حضرت لوط (عليه السلام) کی اتنی معقول بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ پائی۔

التفاسير:

external-link copy
73 : 15

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ ۟ۙ

پس سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑ لیا.(1) info

(1) ایک چنگھاڑ نے، جب کہ سورج طلوع ہو چکا تھا، ان کا خاتمہ کر دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ زوردار آواز حضرت جبرائیل (عليه السلام) کی تھی۔

التفاسير:

external-link copy
74 : 15

فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ ۟ؕ

بالﺂخر ہم نے اس شہر کو اوپر تلے کر دیا(1) اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر(2) برسائے. info

(1) کہا جاتا ہے کہ ان کی بستیوں کو زمین سے اٹھا کر اوپر آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں سے ان کو الٹا کر کے زمین پر پھینک دیا گیا۔ یوں اوپر والا حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر کر کے تہ و بالا کر دیا گیا، اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد محض اس بستی کا چھتوں سمیت زمین بوس ہو جانا ہے۔
(2) اس کے بعد کنکر قسم کے مخصوص پتھر برسائے گئے۔ اس طرح گویا تین قسم کے عذابوں سے انہیں دوچار کر کے نشان عبرت بنا دیا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 15

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ ۟

بلاشبہ بصیرت والوں کے لیے(1) اس میں بہت سی نشانیاں ہیں. info

(1) گہری نظر سے جائزہ لینے اور غور وفکر کرنے والوں کو مُتَوَسِّمِیْنَ کہا جاتا ہے۔ مُتَوَسِّمِیْنَ کے لئے اس واقعے میں عبرت کے پہلو اور نشانیاں ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 15

وَاِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ ۟

یہ بستی ایسی راه پر ہے جو برابر چلتی رہتی (عام گذرگاه) ہے.(1) info

(1) مراد شاہراہ ہے، یعنی قوم لوط کی بستیاں مدینے سے شام کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو انہی بستیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پانچ بستیاں تھیں، سَدُومُ (یہ مرکزی بستی تھی)، صَعْبَةُ, صَعوةُ، عَثْرَةُ اوردُومَا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (عليه السلام) نے اپنے بازو پر انہیں اٹھایا اور آسمان پر چڑھ گئے حتٰی کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں اور پھر ان کو زمین پر دے مارا (ابن کثیر) مگر اس بات کی کوئی سند نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 15

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۟ؕ

اور اس میں ایمان والوں کے لیے بڑی نشانی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
78 : 15

وَاِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَ ۟ۙ

اور بے شک اَیکَہ بستی کے رہنے والے يقيناً ﻇالم تھے.(1) info

(1) ”أَيْكَةُ“ گھنے درخت کو کہتے ہیں۔ اس بستی میں گھنے درخت ہونگے۔ اس لئے انہیں ”اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ“ (بن یا جنگل والے) کہا گیا۔ مراد اس سے قوم شعیب ہے اور ان کا زمانہ حضرت لوط (عليه السلام) کے بعد ہے اور ان کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب ہی تھا۔ اسے مدین کہا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا اور اسی کے نام پر بستی کا نام پڑ گیا تھا۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے، رہزنی ان کا شیوہ اور کم تولنا اور کم ناپنا ان کا وطیرہ تھا، ان پر جب عذاب آیا ایک بادل ان پر سایہ فگن ہو گیا پھر چنگھاڑ اور بھو نچال نے مل کر ان کو ہلاک کر دیا۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 15

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۘ— وَاِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ ۟ؕ۠

جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا۔ یہ دونوں شہر کھلے (عام) راستے پر ہیں.(1) info

(1) إِمَامٍ مُبِينٍ کے معنی بھی شاہراہ عام کے ہیں، جہاں سے شب و روز لوگ گزرتے ہیں۔ دونوں شہر سے مراد قوم لوط کا شہر اور قوم شعیب کا مسکن۔ مدین۔ مراد ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہی تھے۔

التفاسير:

external-link copy
80 : 15

وَلَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ ۟ۙ

اور حِجر والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا.(1) info

(1) حِجر حضرت صالح (عليه السلام) کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انہیں ”اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ“ (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح (عليه السلام) کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالٰی نے فرمایا ”انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا“، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔

التفاسير:

external-link copy
81 : 15

وَاٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ ۟ۙ

اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں بھی عطا فرمائیں (لیکن) تاہم وه ان سے روگردانی ہی کرتے رہے.(1) info

(1) ان نشانیوں میں وہ اونٹنی بھی تھی جو ان کے کہنے پر ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر کی گئی تھی، لیکن ظالموں نے اسے قتل کر ڈالا۔

التفاسير:

external-link copy
82 : 15

وَكَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ ۟

یہ لوگ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے، بے خوف ہوکر.(1) info

(1) یعنی بغیر کسی خوف کے پہاڑ تراش لیا کرتے تھے۔ 9 ہجری میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اس بستی سے گزرے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کر لیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گزرو (ابن کثیر) صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ نمبر 433، مسلم نمبر 2285۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 15

فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَ ۟ۙ

آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑنے آدبوچا.(1) info

(1) حضرت صالح (عليه السلام) نے انہیں کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا، چنانچہ چوتھے روز ان پر یہ عذاب آ گیا۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 15

فَمَاۤ اَغْنٰی عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۟ؕ

پس ان کی کسی تدبیروعمل نے انہیں کوئی فائده نہ دیا. info
التفاسير:

external-link copy
85 : 15

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ— وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ ۟

ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے(1) ، اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے۔ پس تو حسن وخوبی (اور اچھائی) سے درگزر کر لے. info

(1) حق سے مراد وہ فوائد و مصالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے“۔ (النجم: 31)

التفاسير:

external-link copy
86 : 15

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ۟

یقیناً تیرا پروردگار ہی پیدا کرنے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
87 : 15

وَلَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ۟

یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں.(1) کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے. info

(1) سَبْعُ مَثَانِي سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیئے گئے ہیں) حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ“ یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجر) ایک اور حدیث میں فرمایا ”أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ“ سورہ فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
88 : 15

لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۟

آپ ہر گز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں، جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہره مند کر رکھا ہے، نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں.(1) info

(1) یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لئے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے لئے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
89 : 15

وَقُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ ۟ۚ

اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے واﻻ ہوں. info
التفاسير:

external-link copy
90 : 15

كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ۟ۙ

جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا.(1) info

(1) بعض مفسرین کے نزدیک أَنْزَلْنَا کا مفعول الْعَذَابَ محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جو مُقْتَسِمِينَ پر نازل ہوا، مُقْتَسِمِينَ کون ہیں؟ جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کر دیا، اس کے بعض حصے کو شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیرالأولین (پہلوں کی کہانیاں) قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ مُقْتَسِمِينَ سے اہل کتاب اور قرآن سے مراد تورات و انجیل ہیں۔ انہوں نے ان آسمانی کتابوں کو متفرق اجزاء میں بانٹ دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح (عليه السلام) کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح (عليه السلام) اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کر دیں گے «تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ» (النمل: 49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ”عِضِينَ“ کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔

التفاسير: