Übersetzung der Bedeutungen von dem heiligen Quran - Die Übersetzung in Urdu - Muhammad Jonakari.

Nummer der Seite:close

external-link copy
39 : 29

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۫— وَلَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَ ۟ۚ

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی، ان کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے(1) پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے.(2) info

(1) یعنی دلائل ومعجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا، اور بدستور متکبر بنے رہے یعنی ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔
(2) یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اسی طرح کفر وعناد کا راستہ اختیار کیے رکھا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
40 : 29

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ— فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا ۚ— وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ ۚ— وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ— وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ— وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ۟

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا(1) ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا(2) اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا(3) اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا(4) اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا(5)، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ﻇلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے.(6) info

(1) یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی، ان کے گناہوں کی پاداش میں، ہم نے گرفت کی۔
(2) یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تندوتیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی ، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حاصبا کا مصداق قوم لوط (عليه السلام) کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔
(3) یہ حضرت صالح (عليه السلام) کی قوم، ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار دالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔
(4) یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کیے گئے تھے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ (عليه السلام) کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
(5) یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کرکے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔
(6) یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لیے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لیے ہلاک ہوئیں کہ کفروشرک اور تکذیب ومعاصی کا ارتکاب کرکے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 29

مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ ۚ— اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ؕ— وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ۘ— لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۟

جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وه بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حاﻻنکہ تمام گھروں سے زیاده بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے(1) ، کاش! وه جان لیتے. info

(1) یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت بودا، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے ادنیٰ سے اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی، یعنی بالکل بے فائدہ ہے، کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لیے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 29

اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ ؕ— وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟

اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وه اس کے سوا پکار رہے ہیں، وه زبردست اور ذی حکمت ہے info
التفاسير:

external-link copy
43 : 29

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ— وَمَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ۟

ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں(1) انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں.(2) info

(1) یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لیے۔
(2) اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات ودلائل کا علم ہے جن پر غور وفکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
44 : 29

خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۟۠

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے(1) ، ایمان والوں کے لیے تو اس میں بڑی بھاری دلیل ہے.(2) info

(1) یعنی عبث اور بےمقصد نہیں۔
(2) یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم وحکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اسکے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
45 : 29

اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ ؕ— اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ ؕ— وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ۟

جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے(1) اور نماز قائم کریں(2)، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے(3)، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے(4)، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے. info

(1) قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے، محض اجر وثواب کے لئے، اس کے معانی ومطالب پر تدبرو تفکر کے لئے، تعلیم وتدریس کے لئے، اور وعظ ونصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری ہی صورتیں شامل ہیں۔
(2) کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق خصوصی اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم وثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کہا گیاہے اے ایمان والو! صبر اور نماز سےمدد حاصل کرو (البقرۃ: 153) نمازاور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کر لے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط وتعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لئے نبی (صلى الله عليه وسلم) کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی، کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نماز کا اہتمام فرماتے ”إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ فَزِعَ إِلى الصَّلاةِ“ (مسند أحمد وأبو دود)
(3) یعنی، بے حیائی اور برائی کے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتاً ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے۔ ایک دوائی پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائےجو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقیناً اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت، جب نماز کو سنت نبوی (صلى الله عليه وسلم) کے مطابق ان آداب اور شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت وقبولیت کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اس کے لئے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیاً طہارت قلب، یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو، ثالثاً باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلوۃ (قراءت، رکوع، قومہ، سجدہ وغیرہ) میں اعتدال واطمینان، خامساً خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادساً مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام، سابعاً رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں، اس لئے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں، جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔
(4) یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلوٰۃ سے بھی زیادہ موثر ہے۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔

التفاسير: