(1) یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لیے، انہیں چھوڑ دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انہیں جان ومال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعے سے جانچا پر کھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا، سچے جھوٹے کا اور مومن ومنافق کا پتہ چل جائے۔
(1) یعنی یہ سنت الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لیے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے اس ظلم وستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ یہ تشدد وایذا تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ (صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب علامات النبوة في الإسلام) حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔
(1) یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔
(2) یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی . پھر اس کی نافرمانی کرکے اس کے مواخذہ وعذاب سے بچنا کیوں کر ممکن ہے؟
(1) یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر وثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں برلائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزا عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقیناً برپا ہوکر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔
(2) وہ بندوں کی باتوں اور دعاوں کا سننے والا اور ان کے چھپے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے مطابق وہ جزا وسزا بھی یقیناً دے گا۔
(1) اس کا مطلب وہی ہے جو «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ» (الجاثية: 15) کا ہے یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو بندوں کے افعال سے بےنیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت واضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہو جائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔