(1) آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی جبلت رویہ کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرویا اپنے گھرں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کر سکے تو اس پرعمل کس طرح کر سکتے تھے؟ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کی بابت فرمایا ہے جو یقیناً واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر عمل تو یقیناً مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے، اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لئے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے۔ یعنی اسکا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔
(1) اللہ ورسول کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے ”الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ“ (صحيح بخاري كتاب الآداب باب نمبر 97، علامة حب الله عز وجل مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب المرء مع من أحب حديث نمبر 1640) آدمی انہی کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی، حضرت انس (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ صحابہ (رضي الله عنهم) کو جتنی خوشی اس فرمان رسول کو سن کر ہوئی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فرو تر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اس صحبت ورفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا۔ (ابن کثیر) بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے بطور خاص نبی (صلى الله عليه وسلم) سے جنّت میں رفاقت کی درخواست کی ”أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ“ جس پر نبی (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی ”فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ“ (صحيح مسلم كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه حديث نمبر488) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے ”التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ“ (ترمذي- كتاب البيوع باب ما جاء في التجار وتسمية النبي صلى الله عليه وسلم إياهم) راستباز، امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا، ”صدیقیت“ کمال ایمان وکمال اطاعت کا نام ہے، نبوّت کے بعد اس کا مقام ہے، امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لئے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے بعد افضل ہیں، ”صالح“ وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔
(1) یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس وپیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں۔
(1) یعنی جنگ میں فتح وغلبہ اور غنیمت۔
(2) یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔
(3) یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرتا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔
(1) شَرَى يَشْرِي کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے ”فَلْيُقَاتِلْ“ کا فاعل الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ بنے گا لیکن اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الَّذِينَ مفعول بنے گا اور فَلْيُقَاتِلْ کا فاعل الْمُؤْمِنُ النَّافِرُ (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کو تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کر دیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہوں گے۔ (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے )