Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry

Broj stranice:close

external-link copy
73 : 22

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ؕ— اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ ؕ— وَاِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْـًٔا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ؕ— ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ۟

لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں(1) ، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں(2) سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے(3) وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے. info

(1) یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بےجان مورتیاں ہی نہیں ہوتی تھیں، جیسا کہ آج کل قبر پرستی کا جواز پیش کرنے ولے لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ یہ عقل و شعور رکھنے والی چیزیں بھی تھیں۔ یعنی اللہ کے نیک بندے بھی تھے، جن کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا، اسی لئے اللہ عتالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ سب اکٹھے بھی ہوجائیں تو ایک حقیر ترین شے مکھی، بھی پیدا نہیں کرسکتے، محض پتھر کی مورتیوں کو یہ چیلنج نہیں دیا جاسکتا۔
(2) یہ ان کی مزید بے بسی اور لاچارگی کا اظہار ہے کہ پیدا کرنا تو کجا، یہ تو مکھی کو پکڑ کر اس کے منہ سے اپنی وہ چیز بھی واپس نہیں لے سکتے، جو وہ ان سے چھین کر لے جائے۔
(3) طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بےبسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ" اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے "۔ (صحيح بخاري، كتاب اللباس ، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صور)

التفاسير:

external-link copy
74 : 22

مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۟

انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں(1) ، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت واﻻ اور غالب وزبردست ہے. info

(1) یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی بےبس مخلوق کو اس کا ہمسر اور شریک قرار دے لیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالٰی کی عظمت و جلالت، اس کی قدرت و طاقت اور اس کی بےپناہی کا صحیح صحیح اندازہ اور علم ہو تو وہ کبھی اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 22

اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ ۟ۚ

فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہونچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے،(1) بیشک اللہ تعالیٰ سننے واﻻ دیکھنے واﻻ ہے.(2) info

(1) رَسُلٌ رَسُولٌ (فرستادہ، بھیجا ہوا قاصد) کی جمع ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرشتوں سے بھی رسالت کا یعنی پیغام رسانی کا کام لیا ہے، جیسے حضرت جبرائیل (عليه السلام) کو اپنی وحی کے لئے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اور لوگوں میں سے بھی، جنہیں چاہا، رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں لوگوں کی ہدایت و راہنمائی پر مامور فرمایا۔ یہ سب اللہ کے بندے تھے، گو منتخب اور چنیدہ تھے لیکن کسی کے لئے؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لئے؟ جس طرح کے بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا شریک گردان لیا۔ نہیں، بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے۔
(2) وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے۔ یعنی یہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے؟ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه» (الانعام:124) ”اس موقع کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے“۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 22

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ؕ— وَاِلَی اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۟

وه بخوبی جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں.(1) info

(1) جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کرکے کہاں جا سکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے؟ چنانچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 22

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۟

اے ایمان والو! رکوع سجده کرتے رہو(1) اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.(2) info

(1) یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آرہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت و افضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔
(2) یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت و اطاعت سے گریز کرکے محض مادی اسباب و وسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 22

وَجَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ؕ— هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ؕ— مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ ؕ— هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ۙ۬— مِنْ قَبْلُ وَفِیْ هٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۖۚ— فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ ؕ— هُوَ مَوْلٰىكُمْ ۚ— فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ۟۠

اور اللہ کی راه میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے(1) ۔ اسی نے تمہیں برگزیده بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی(2)، دین اپنے باپ ابراہیم(3) (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ(4) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواه ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواه بن جاؤ(5)۔ پس تمہیں چاہئے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰة ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا ولی اور مالک ہے۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے. info

(1) اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی اور مغلوبیت کے لئے کی جائے۔
(2) یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو، (ورنہ تھوڑی بہت محنت و مشقت تو ہر کام میں ہی اٹھانی پڑتی ہے) بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔
(3) عرب حضرت اسماعیل (عليه السلام) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (عليه السلام) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے) حضرت ابراہیم (عليه السلام) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم (عليه السلام) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔
(4) هو کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم (عليه السلام) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم (عليه السلام) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالٰی ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔
(5) یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت 143کا حاشیہ۔

التفاسير: