(1) آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالٰی آدم (عليه السلام) کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں ۹۹۹ جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی۔ یہ بات صحابہ(رضي الله عنهم) پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورہ حج) پہلی رائے بھی بےوزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔
(1) مثلًا یہ کہ اللہ تعالٰی دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔
(1) یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃ گاڑھا خون اور عَلَقَۃ سے مُضْغَۃ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہو جائے، ایسے بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے اور تکمیل کے بعد اس کی ولادت ہوجاتی ہے اور غیر مخلقۃ، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہو جائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ(لوتھرڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحيح بخاري كتاب الأنبياء وكتاب القدر، مسلم كتاب القدر ، باب كيفية الخلق الآدميٍ)
(2) یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔
(3) یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔
(4) یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت و تمیز کی عمر، جو 30 سے 40 سال کے درمیان عمر ہے۔
(5) اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہو جانا اور یاداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہو جانا، جسے سورہ یٰسین میں «وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ»(یس:68) اور سورہ تین میں «ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ»(التین:5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(6) یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالٰی کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کر سکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کر دینا مشکل ہے؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالٰی قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی(رضي الله عنه) نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہوگا۔(مسند احمد جلد 4، ص11 ابن ماجہ المقدمہ، حدیث نمبر 180)