Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry

Broj stranice:close

external-link copy
71 : 10

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ۘ— اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ ۟

اور آپ ان کو نوح﴿علیہ السلام﴾ کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کرلو(1) پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعﺚ نہ ہونی چاہئے(2)۔ پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو. info

(1) یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کر لو ”اگر وہ تمہارے زعم کے مطابق تمہاری مدد کر سکتے ہیں“۔
(2) غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، ابہام اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مبہم ہونی چاہئے۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 10

فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ ؕ— اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ ۙ— وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۟

پھر بھی اگر تم اعراض ہی کیے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا(1) ، میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں.(2) info

(1) کہ جس کی وجہ سے تم یہ تہمت لگا سکو کہ دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو مال و دولت کا اکٹھا کرنا ہے۔
(2) حضرت نوح (عليه السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی رہا گو شرائع مختلف اور مناہج متعدد رہے۔ جیسا کہ آیت «لِكُلّٖ جَعَلۡنَا مِنكُمۡ شِرۡعَةٗ وَمِنۡهَاجٗا» (المائدة: 48)، سے واضح ہے۔ لیکن دین سب کا اسلام تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ النمل ۹۱، سورہ بقرہ ۱۳۱-۱۳۲، سورہ یوسف،101۔ سورہ یونس 84، سورہ اعراف ۱۲6، سورہ نمل 44، سورہ مائدہ 44 اور 111 اور سورہ انعام 162- 163۔

التفاسير:

external-link copy
73 : 10

فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَجَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓىِٕفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ۚ— فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ ۟

سو وه لوگ ان کو جھٹلاتے رہے(1) پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے ان کو نجات دی اور ان کو جانشین بنایا (2)اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کردیا۔ سو دیکھنا چاہئے کیسا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ڈرائے جاچکے تھے. info

(1) یعنی قوم نوح (عليه السلام) نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود جھٹلانے کا راستہ نہیں چھوڑا چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت نوح (عليه السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتٰی کہ حضرت نوح (عليه السلام) کے ایک بیٹے کو بھی غرق کر دیا۔
(2) یعنی زمین میں ان سے بچنے والوں کو ان سے پہلے کے لوگوں کا جانشین بنایا۔ پھر انسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں بالخصوص حضرت نوح (عليه السلام) کے تین بیٹوں سے چلی، اسی لئے حضرت نوح (عليه السلام) آدم ثانی کہا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
74 : 10

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ ؕ— كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ ۟

پھر نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وه ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے(1) پس جس چیز کو انہوں نے اول میں جھوٹا کہہ دیا یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیتے(2)۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے.(3) info

(1) یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے سچے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔
(2) لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، محض اس لئے کہ جب اول اول یہ رسول ان کے پاس آئے تو فوراً بغیر غور و فکر کئے، ان کا انکار کر دیا۔ اور یہ پہلی مرتبہ کا انکار ان کے لئے مستقل حجاب بن گیا۔ اور وہ یہی سوچتے رہے کہ ہم تو پہلے انکار کر چکے ہیں، اب اس کو کیا ماننا، لہذا ایمان سے محروم رہے۔
(3) یعنی جس طرح ان گذشتہ قوموں پر انکے کفر و تکذیب کی وجہ سے مہریں لگتی رہیں ہیں اسی طرح آئندہ بھی جو قوم رسولوں کو جھٹلائے گی اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گی، ان کے دلوں پر مہر لگتی رہے گی اور ہدایت سے وہ، اسی طرح محروم رہے گی، جس طرح گذشتہ قومیں محروم رہیں۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 10

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰی وَهٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ۟

پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو(1) ، فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(2)۔ سو انہوں نے تکبر کیا اور وه لوگ مجرم قوم تھے.(3) info

(1) رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآنحالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لئے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔
(2) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت 101میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔
(3) لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرأت پیدا کرتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 10

فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۟

پھر جب ان کو ہمارے پاس سے صحیح دلیل پہنچی تو وه لوگ کہنے لگے کہ یقیناً یہ صریح جادو ہے.(1) info

(1) جب انکار کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 10

قَالَ مُوْسٰۤی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْ ؕ— اَسِحْرٌ هٰذَا ؕ— وَلَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ ۟

موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب کہ وه تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے، حاﻻنکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے.(1) info

(1) حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے کہ ذرا سوچو تو سہی، حق کی دعوت اور صحیح بات کو تم جادو کہتے ہو، بھلا یہ جادو ہے؟ جادوگر تو کامیاب ہی نہیں ہوتے۔ یعنی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور ناپسندیدہ انجام سے بچنے میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میں تو اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ کی مدد حاصل ہے اور اس کی طرف سے مجھے معجزات اور آیات بینات عطا کی گئی ہیں مجھے سحر و ساحری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اللہ کے عطا کردہ معجزات کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 10

قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ ؕ— وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ ۟

وه لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹادو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے (1) اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے. info

(1) یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء واجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انہیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) اور جادوں گروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورہ اعراف میں گزرا اور سورہ طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔

التفاسير: