Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry

یونس

external-link copy
1 : 10

الٓرٰ ۫— تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ ۟

الرٰ۔ یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں۔(1) info

(1) اَلْحَکِیْمِ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب۔ (البقرۃ: 23)، یعنی اللہ تعالٰی نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 10

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ؔؕ— قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ ۟

کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب(1) ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر ومرتبہ(2) ملے گا۔ کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔(3) info

(1) استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالٰی نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہو جاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کا انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
(2) «قَدَمَ صِدْقٍ» کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔
(3) کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ باللہ۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 10

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ؕ— مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِهٖ ؕ— ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ؕ— اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۟

بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش پر قائم ہوا(1) وه ہر کام کی تدبیر کرتا ہے(2)۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے واﻻ نہیں(3) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو(4)، کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔ info

(1) اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورہ اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔
(2) یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہرچیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔
(3) مشرکین و کفار، جو اصل مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالٰی پسند فرمائے گا۔ «وَلَا يَشۡفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ٱرۡتَضَىٰ» [الأنبياء: 28]. «لَا تُغۡنِي شَفَٰعَتُهُمۡ شَيۡ‍ًٔا إِلَّا مِنۢ بَعۡدِ أَن يَأۡذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرۡضَىٰٓ» [النجم: 26].
(4) یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 10

اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا ؕ— وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا ؕ— اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ؕ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ ۟

تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعده کر رکھا ہے۔ بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوباره بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کیے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے۔(1) info

(1) اس آیت میں قیامت کے وقوع، بارگاہ الٰہی میں سب کی حاضری اور جزا سزا کا بیان ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف اسلوب سے متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 10

هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ؕ— مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ— یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۟

وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا(1) اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو(2)۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائده نہیں پیدا کیں۔ وه یہ دﻻئل ان کو صاف صاف بتلا رہا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔ info

(1) ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذا نور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکماء کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر) واللہ اعلم بالصواب۔
(2) یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ 28 منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریج بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہو جاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کر سکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہرچیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال 12 مہینے کا، مہینہ 29،30 دن کا ایک دن 24 گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں 12، 12 گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دینوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 10

اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ۟

بلاشبہ رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے دﻻئل ہیں جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں۔ info
التفاسير: