(1) یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔
(2) ”خَلاق“ کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔
(3) یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے، بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟“۔ (صحيح بخاري، كتاب الاعتصام مسلم، كتاب العلم)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (بَاعًا بِبَاع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔
(4) أُولَئِكَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات وعادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔
(1) یہاں ان چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ یہ بلاد عرب کے قریب ہے اور ان کی کچھ باتیں انہوں نے شاید آبا واجداد سے سنی بھی ہوں قوم، نوح، جو طوفان میں غرق کر دی گئی۔ قوم عاد جو قوت اور طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود، باد تند سے ہلاک کر دی گئی۔ قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا قوم ابراہیم، جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مروا دیا گیا۔ اصحاب مدین (حضرت شعیب عليه السلام کی قوم) جنہیں چیخ زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا اور اہل مؤتفکات۔ اس سے مراد قوم لوط ہے جن کی بستی کا نام 'سدوم' تھا ائتفاک کے معنی ہیں انقلاب الٹ پلٹ دینا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی اس اعتبار سے انہیں اصحاب مؤتفکات کہا جاتا ہے۔
(2) ان سب قوموں کے پاس، ان کے پیغمبر، جو ان ہی کی قوم ایک فرد ہوتا تھا آئے۔ لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ تکذیب اور عناد کا راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الٰہی کی شکل میں نکلا۔
(3) یعنی یہ عذاب ان کے ظلم پر استمرار اور دوام کا نتیجہ ہے یوں ہی بلاوجہ عذاب الہٰی کا شکار نہیں ہوئے۔
(1) منافقین کی صفات مذمومہ کے مقابلے مومنین کی صفات محمودہ کا ذکر ہو رہا ہے پہلی صفت وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں جس طرح حدیث میں ہے: «الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا»( صحيح بخاري- كتاب الصلاة ، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره- مسلم، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم) ”مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا ذریعہ ہے“۔ دوسری حدیث میں فرمایا:«مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ، كَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْه عُضْوٌ ، تَدَاعَى لَه سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمّى وَالسَّهَرِ»، ( صحيح مسلم، باب مذكور، والبخاري - كتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم) ”مومنوں کی مثال، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہو جاتا ہے اور بیدار رہتا ہے“۔
(2) یہ اہل ایمان کی دوسری خاص صفت ہے معروف وہ ہے جسے شریعت نے معروف (یعنی نیکی اور بھلائی) اور منکر وہ ہے جسے شریعت نے منکر (یعنی برا) قرار دیا ہے۔ نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا یا برا کہیں۔
(3) نماز، حقوق اللہ میں نمایاں ترین عبادت ہے اور زکٰوۃ حقوق العباد کے لحاظ سے، امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کا بطور خاص تذکرہ کر کے فرما دیا گیا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔
(1) جو موتی اور یاقوت تیار کئے گئے ہوں گے۔ عدن کے کئی معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی ہمیشگی کے ہیں۔
(2) حدیث میں بھی آتا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کے بعد اہل جنت کو سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی کی صورت میں ملے گی (صحيح بخاري ومسلم- كتاب الرقاق وكتاب الجنة)