Qurani Kərimin mənaca tərcüməsi - Urdu dilinə tərcümə - Məhəmməd Cunəkri.

Səhifənin rəqəmi:close

external-link copy
74 : 6

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً ۚ— اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۟

اور وه وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر(1) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بےشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ info

(1) مورخین حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہٰذا یہی صحیح ہے۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 6

وَكَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۟

اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔(1) info

(1) ”مَلَكُوتٌ“ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبہ سے رَغَبُوتٌ اور رَهْبَةٌ سے رَهَبُوتٌ اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت والوہیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (عليه السلام) کو مکاشفہ ومشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
76 : 6

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا ۚ— قَالَ هٰذَا رَبِّیْ ۚ— فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ۟

پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستاره دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔(1) info

(1) یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے کہ غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہوسکتا۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 6

فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ ۚ— فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ ۟

پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراه لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا۔ info
التفاسير:

external-link copy
78 : 6

فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ ۚ— فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ۟

پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ(1) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وه بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔(2) info

(1) ”شَمْسٌ“ (سورج) عربی میں مونث ہے۔ لیکن اسم اشارہ مذکر ہے۔ مراد الطالع ہے یعنی یہ طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کہ سورﺝ پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں۔ (اجرام سماویہ میں سورج سب سے بڑا اور سب سے زیادہ روشن ہے اور انسانی زندگی کے بقا ووجود کے لئے اس کی اہمیت وافادیت محتاج وضاحت نہیں۔ اسی لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔
(2) یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا، حضرت ابراہیم (عليه السلام) بھی ان ہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں۔ وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورﺝ دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے، لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے۔ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے یہ باتیں کی ہیں، اسی لئے آخر میں قوم سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں۔ اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 6

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟ۚ

میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں(1) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ info

(1) رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے، مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود، اللہ عزوجل ہے جو آسمان وزمین کا خالق ہے۔

التفاسير:

external-link copy
80 : 6

وَحَآجَّهٗ قَوْمُهٗ ؕ— قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ ؕ— وَلَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْـًٔا ؕ— وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا ؕ— اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ۟

اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا(1) ، آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے معاملہ میں مجھ سے حجت کرتے ہو حاﻻنکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔ info

(1) جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لئے کچھ نے کچھ دلائل تراش رکھے تھے۔ جس کا مشاہدہ آﺝ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں، سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لئے ایسے (سہارے) تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ (دلائل) سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
81 : 6

وَكَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا ؕ— فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ۚ— اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۟ۘ

اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حاﻻنکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیاده مستحق کون ہے(1) اگر تم خبر رکھتے ہو۔ info

(1) یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی دلیل کوئی نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا؟

التفاسير: