(1) کہتےہیں کہ یہ اہل مکہ کےجواب میں ہے جوکہتے تھے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی انسان سکھاتا ہے بعض کہتےہیں کہ ان کے اس قول کے جواب میں ہے کہ رحمٰن کیا ہے؟ قرآن سکھانے کا مطلب ہے، اسے آسان کر دیا، یااللہ نے اپنے پیغمبر کوسکھایا اور پیغمبر نے امت کو سکھایا۔ اس سورت میں اللہ نےاپنی بہت سی نعمتیں گنوائی ہیں۔ چونکہ تعلیم قرآن ان میں قدرومنزلت اور اہمیت وافادیت کے لحاظ سےسب سے نمایاں ہے، اس لیے پہلے اسی نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ (فتح القدیر)۔
(1) اس بیان سےمراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیرسیکھے ازخود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر لیتاہے، حتیٰ کہ وہ چھوٹا بچہ بھی بولتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ اس تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
(1) جیسے دوسرےمقام پر فرمایا أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ الآية (الحج: 18)۔
(1) یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا، جیسے فرمایا: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحديد: 25)۔
(1) یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعتمیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے۔ یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پرمسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں؟ (فتح القدیر)۔
(1) صَلْصَالٍ خشک مٹی، جس میں آ واز ہو۔ فَخَّارٌ آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتےہیں۔ اس انسان سےمراد حضرت آدم (عليه السلام) ہیں، جن کا پہلے مٹی سے پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم (عليه السلام) کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔
(1) ایک گرمی کا مشرق اورایک سردی کا مشرق، اسی طرح مغرب ہے۔ اس لیے دونوں کو تثنیہ ذکر کیاہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کامختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لیے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔
(1) مَرَجَ بمعنی أَرْسَل َجاری کر دیئے۔ اس کی تفصیل سورۃ الفرقان،آیت 53 میں گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو دریاوں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں۔ جیسےمیٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کاﭘانی ہے۔ جو کھارا ہے،جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اوریہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔ اس کی ایک صورت تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپرکھارا پانی ہو اور اس کی تہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتاً بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جا گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔
(1) مَرْجَانٌ سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں۔ کہتے ہیں کہ آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے مونہہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے اندر پڑ جاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہےمشہور یہی ہے کہ موتی وغیرہ میٹھے پانی کے دریاؤں سے نہیں، بلکہ صرف آب شور یعنی سمندروں سے ہی نکلتے ہیں۔ لیکن قرآن نے تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سے ہی موتی نکلتے ہیں۔ چونکہ موتی کثرت کے ساتھ سمندروں سےہی نکلتے ہیں، اس لیےاس کی شہرت ہو گئی ہے۔ تاہم شیریں دریاؤں سے اس کی نفی ممکن نہیں بلکہ موجودہ دور کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ میٹھے دریا میں بھی موتی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے ان سے موتی نکالنا مشکل امر ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد مجموعہ ہے، ان میں سے کسی ایک سے بھی موتی نکل جائیں توان پر تثنیہ کا اطلاق صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ شیریں دریا بھی عام طور پر سمندر میں ہی گرتے ہیں اور وہیں سے موتی نکالے جاتے ہیں، اس لیے گو منبع دریائے شور ہی ہوئے، لیکن دوسرے دریاؤں کا حصہ بھی اس میں شامل ہے لیکن موجودہ دورکے تجربات کے بعد ان تاویلات اور تکلﻔات کی ضرورت نہیں۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔
(1) یہ جواہر اورموتی زیب وزینت اور حسن وجمال کا مظہر ہیں اور اہل شوق واہل ثروت انہیں اپنے ذوق جمال کی تسکین اور حسن ورعنائی میں اضافے ہی کے لیے استعمال کرتےہیں، اس لیے ان کا نعمت ہونا بھی واضح ہے۔
(1) الْجَوَارِ، جَارِيَةٌ (چلنے والی) کی جمع اور محذوف موصوف (السُّفُنُ) کی صفت ہے۔ مُنْشَآتٌ کے معنی مرفوعات ہیں، یعنی بلند کی ہوئیں، مراد بادبان ہیں،جو بادبانی کشتیوں میں جھنڈوں کی طرح اونچے اور بلند بنائے جاتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی مصنوعات کے کیے ہیں یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جو سمندر میں چلتی ہیں۔
(1) یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔
(2) ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر بنا رہا ہے تو کسی تونگرکو فقیر۔ کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کرر ہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے، کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کررہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امر ومشیت سےہو رہے ہیں اور شب وروز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ۔
(1) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے۔ جس کا مقصد وعید وتہدید ہے۔ ثَقَلانِ (جن وانس کو) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کو تکالیف شرعیہ کا پابندکیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستثنیٰ ہے۔
(1) یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اورمحسن زیادہ نیکیاں کمائے۔
(2) یعنی اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جا سکتے ہو تو چلے جاؤ، لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا؟ کون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ کے اختیارات سے باہر ہو۔ یہ بھی تہدید ہے جو مذکورہ تہدید کی طرح نعمت ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جب کہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہوں گے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
(1) مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت والے دن کہیں بھاگ کر گئے بھی، تو فرشتے آگ کے شعلے اور دھواں تم پر چھوڑ کر یا پگھلا ہوا تانبہ تمہارے سروں پر ڈال کر تمہیں واپس لے آئیں گے۔ نُحَاسٌ کے دوسرے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے کیے گئے ہیں۔
(2) یعنی اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی تم قدرت نہیں رکھو گے۔
(1) یعنی جس وقت وہ قبروں سےباہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں موقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ ان کا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے؟ یا یہ مطلب ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خودبول کر ہر بات بتلائیں گے۔
(1) یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہوں گے۔ اسی طرح گناہ گاروں کےچہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہوں گے۔
(2) فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔
(1) جیسے حدیث میں آتا ہے۔ ”دو باغ چاندی کے ہیں، جن میں برتن اورجو کچھ ان میں ہے، سب چاندی کے ہوں گے۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سب سونے کے ہی ہوں گے“۔ (صحيح بخاري، تفسير سور الرحمن) بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مومنین مُقَرَّبِينَ اورچاندی کے باغ عام مومنین أَصْحَابُ الْيَمِينِ کے لیے ہوں گے۔ (ابن کثیر)۔
(1) ابری یعنی اوپر کا کپڑاہمیشہ استر سےبہتر اور خوب صورت ہوتا ہے،یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہو گا۔
(2) اتنے قریب ہوں گے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔ قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ (الحاقة: 23)۔
(1) جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کو اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہوں گے۔
(2) یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہوں گے۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مومن ہوں گے، وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کےلیے ہوگا۔
(1) یعنی صفائی میں یا قوت اور سفیدی وسرخی میں موتی یا مونگے کی طرح ہوں گی۔ جس طرح صحیح احادیث میں بھی ان کے حسن وجمال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ”يُرَى مُخُّ سُوقِهِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ“ (صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق ، باب ما جاء في صفة الجنة، وصحيح مسلم ، كتاب الجنة وصفة نعيمها ، باب أول زمرة تدخل الجنة) ”ان کے حسن وجمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا گوشت اور ہڈی کے باہر سے نظر آئے گا“۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ ”جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین وجمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل ارض کی طرف جھانک لےتو آسمان وزمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھرجائے، اور اس کے سر کا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب الجهاد باب الحور العين)۔
(1) حدیث میں نبی ﹲ نے فرمایا جنت میں موتیوں کے خیمے ہوں گے، ان کا عرض ساٹھ میل ہوگا، اس کےہر کونے میں جنتی کے اہل ہوں گے، جس کو دوسرے کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن اس میں گھومے گا۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الرحمن وكتاب بدء ما جاء في صفة الجنة ، صحيح مسلم، كتاب الجنة ، باب في صفة خيام الجنة)۔
(1) رفرف مسند، غالیچہ یا اس قسم کاعمدہ فرش عَبْقَرِيٍّ ، ہر نفیس اور اعلیٰ چیز کو کہا جاتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت عمر (رضي الله عنه) کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِي فِرْيَة (البخاري ، كتاب المناقب، باب فضل عمر- وصحيح مسلم ، فضائل الصحابة ، باب من فضائل عمررضي الله عنه) ”میں نے کوئی عبقری ایسا نہیں دیکھا جو عمر کی طرح کام کرتا ہو“۔ مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر فروکش ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلیٰ قسم کے خوبصورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔
(1) یہ آیت اس سورت میں 31 مرتبہ آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی اقسام وانواع کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ استفسار فرمایا ہے، حتیٰ کہ میدان محشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کے بعد بھی یہ استفسار فرمایاہے، جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یاد دہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تاکہ بچنے والے اس سے بچنے کی سعی کر لیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی، کہ جن بھی انسانوں کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے بلکہ انسانوں کے بعدیہ دوسری مخلوق ہے جسے عقل وشعور سے نوازا گیا ہے اور اس کے بدلے میں ان سے صرف اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ مخلوقات میں یہی دو ہیں جو شرعی احکام وفرائض کے مکلف ہیں، اسی لیے انہیں ارادہ واختیار کی آزادی دی گئی ہے۔ تاکہ ان کی آزمائش ہو سکے، تیسرے نعمتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ومستحب ہے۔ یہ زہد وتقویٰ کے خلاف ہے اور نہ تعلق مع اللہ میں مانع، جیساکہ بعض اہل تصوف باورکراتے ہیں۔ چوتھے، بار بار یہ سوال کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کی تکذیب کرو گے؟ یہ توبیخ اور تہدید کے طور پر ہے، جس کا مقصد اس اللہ کی نافرمانی سے روکنا ہے، جس نے یہ ساری نعمتیں پیدا اور مہیا فرمائیں۔ اسی لیے نبی ﹲ نے اس کے جواب میں یہ پڑھنا پسند فرمایا ”لا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ“ اے ہمارے رب ہم تیری کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتے، پس تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں (سنن الترمذي، والصحيحة للألباني) لیکن اندرون صلاۃ اس جواب کاﭘڑھنا مشروع نہیں۔
(1) تَبَارَكَ، برکت سے ہے جس کے معنی دوام وثبات کے ہیں۔ مطلب ہے اس کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے، یا اس کے پاس ہمیشہ خیر کے خزانے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی بلندی اور علو شان کےکیے ہیں اور جب اس کا نام اتنا بابرکت یعنی خیر اور بلندی کا حامل ہے تو اس کی ذات کتنی برکت اور عظمت و رفعت والی ہو گی۔