(1) اس سے مراد ترک اولیٰ والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (صلى الله عليه وسلم)پنے اپنی فہم واجتہاد سے کیے، لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا، جیسے عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۂ عبس کا نزول ہوا، یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں، لیکن آپ(صلى الله عليه وسلم) کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کوتاہیاں شمار کر لیا گیا، جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ لِيَغْفِرَ میں لام تعلیل کے لئے ہے۔ یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں۔ اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب، اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا، جس سے آپ(صلى الله عليه وسلم) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات، وبلندی درجات میں بھی۔
(2) اس دین کو غالب کرکے جس کی تم دعوت دیتے ہو۔ یا فتح وغلبہ عطا کرکے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر استقامت یہی اتمام نعمت ہے (فتح القدیر)۔
(3) یعنی اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔
(1) یعنی اس اضطراب کے بعد، جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی، جس سے ان کےدلوں کو اطمینان، سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا۔ یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
(2) یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلاً فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے۔ لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال وجہاد کا حکم دیا۔ اسی لئے آگے اپنی صفت علیم وحکیم بیان فرمائی ہے۔ یا مطلب ہے کہ آسمان وزمین کےفرشتے اور اسی طرح دیگر ذی شوکت وقوت لشکر سب اللہ کے تابع ہیں اور ان سے جس طرح چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ ایک کافر گروہ کو ہی دوسرے کافر گروہ پر مسلط کرکے مسلمانوں کی امداد کی صورت پیدا فرما دیتا ہے۔ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ تمہارا محتاج نہیں ہے، وہ اپنےپیغمبر اور اپنے دین کی مدد کا کام کسی بھی گروہ اور لشکر سے لے سکتا ہے۔ (ابن کثیر وایسر التفاسیر)۔
(1) حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں سورۂ فتح کا ابتدائی حصہ سنا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ تو انہوں نے نبی (صلى الله عليه وسلم) یسے کہا آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا ہے؟ جس پر اللہ نے آیت لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ نازل فرما دی (صحيح بخاري، باب غزوة الحديبية) بعض کہتے ہیں کہ یہ لِيَزْدَادُوا یا يَنْصُرَكَ کے متعلق ہے۔
(1) یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر متہم کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)اور صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہو جائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (ابن کثیر)۔
(2) یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو ان ہی کا مقدر بننے والی ہے۔
(1) یہاں اسے منافقین اور کفار کے ضمن میں دوبارہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔