Qurani Kərimin mənaca tərcüməsi - Urdu dilinə tərcümə - Məhəmməd Cunəkri.

Səhifənin rəqəmi:close

external-link copy
20 : 47

وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ— فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ ۙ— رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ ؕ— فَاَوْلٰى لَهُمْ ۟ۚ

اور جو لوگ ایمان ﻻئے وه کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی(1) ؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت(2) نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وه آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو(3)، پس بہت بہتر تھا ان کے لئے. info

(1) جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین، جو جذبۂ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کےخواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی؟ یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔ جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین، جو جذبۂ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کےخواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی؟ یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔ جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین، جو جذبۂ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کےخواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی؟ یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔
(2) یعنی ایسی سورت جو غیر منسوخ ہو۔
(3) یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہو جاتے تھے۔ سورۂ نساء، آیت 77 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 47

طَاعَةٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ۫— فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ ۫— فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ ۟ۚ

فرمان کا بجا ﻻنا اور اچھی بات کا کہنا(1) ۔ پھر جب کام مقرر ہو جائے(2)، تو اللہ کے ساتھ سچے رہیں(3) تو ان کے لئے بہتری ہے.(4) info

(1) یعنی حکم جہاد سے گھبرانے کے بجائے ان کے لئے بہتر تھا کہ وہ سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے اور نبی (صلى الله عليه وسلم)کی بابت، گستاخی کے بجائے، اچھی بات کہتے۔ یہ أَوْلَى بمعنی أَجْدَرُ (بہتر) ہے، جسے ابن کثیرنے اختیار کیا ہے۔ بعض نے اولیٰ کو تہدید ووعید کا کلمہ یعنی بددعا قرار دیا ہے۔ مَعْنَاهُ قَارَبَهُ مَا يُهْلِكُهُ (ان کی ہلاکت قریب ہے) مطلب ہے، ان کی بزدلی اور نفاق ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔ اس اعتبار سے طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ جملہ مستانفہ ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی خَيْرٌ لَّكُمْ (فتح القدیر، ایسر التفاسیر)۔
(2) یعنی جہاد کی تیاری مکمل ہو جائے اور وقت جہاد آجائے۔
(3) یعنی اگر اب بھی نفاق چھوڑ کر، اپنی نیت اللہ کے لئے خالص کر لیں، یا رسول کے سامنے رسول (صلى الله عليه وسلم)کے ساتھ لڑنے کا جو عہد کرتے ہیں، اس میں اللہ سے سچے رہیں۔
(4) یعنی نفاق اور مخالفت کے مقابلے میں توبہ واخلاص کا مظاہرہ بہتر ہے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 47

فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ ۟

اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو(1) اور رشتے ناتے توڑ ڈالو. info

(1) ایک دوسرے کو قتل کرکے۔ یعنی اختیار واقتدار کا غلط استعمال کرو۔ امام ابن کثیر نے تَوَلَّيْتُمْ کا ترجمہ کیا ہے (تم جہاد سےپھر جاؤ اور اس سےاعراض کرو) یعنی تم پھر زمانۂ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو۔ اس میں فساد فی الارض کی عموماً اور قطع رحمی کی خصوصاً ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلۂ رحمی کی تاکید ہے، جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے، عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو۔ احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ (ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 47

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰۤی اَبْصَارَهُمْ ۟

یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے.(1) info

(1) یعنی ایسےلوگوں کے کانوں کو اللہ نے (حق کے سننے سے) بہرہ اور آنکھوں کو (حق دیکھنے سے) اندھا کر دیا ہے۔ یہ نتیجہ ہے ان کے مذکورہ اعمال سیئہ کا۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 47

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ۟

کیا یہ قران میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں.(1) info

(1) جس کی وجہ سے قرآن کے معنی ومفاہیم ان کے دلوں کے اندر نہیں جاتے۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 47

اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰۤی اَدْبَارِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدَی ۙ— الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ؕ— وَاَمْلٰی لَهُمْ ۟

جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد ان کے لئے ہدایت واضح(1) ہو چکی یقیناً شیطان نے ان کے لئے (ان کے فعل کو) مزین کر دیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے.(2) info

(1) اس سےمراد منافقین ہی ہیں جنہوں نے جہاد سےگریز کرکے اپنے کفر وارتداد کو ظاہر کر دیا۔
(2) اس کا فاعل بھی شیطان ہے۔ یعنی مَدَّ لَهُمْ فِي الأَمَلِ وَوَعَدَهُمْ طُولَ الْعُمْرِ یعنی انہیں لمبی آرزوؤں اور اس دھوکے میں مبتلا کر دیا کہ ابھی تو تمہاری بڑی عمر ہے، کیوں لڑائی میں اپنی جان گنواتے ہو؟ یا فاعل اللہ ہے، اللہ نے انہیں ڈھیل دی۔ یعنی فوراً ان کا مواخذہ نہیں فرمایا۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 47

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِیْعُكُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ ۚ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ ۟

یہ(1) اس لئے کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کی نازل کرده وحی کو برا سمجھا یہ کہا(2) کہ ہم بھی عنقریب بعض کاموں(3) میں تمہارا کہا مانیں گے، اور اللہ ان کی پوشیده باتیں خوب جانتا ہے.(4) info

(1) (یہ) سے مراد ان کا ارتداد ہے۔
(2) یعنی منافقین نے مشرکین سے یا یہود سے کہا۔
(3) یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے لائے ہوئے دین کی مخالفت میں۔
(4) جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔«وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ» (النساء: 81)

التفاسير:

external-link copy
27 : 47

فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۟

پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سرینوں پر ماریں گے.(1) info

(1) یہ کافروں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ روحیں فرشتوں سے بچنے کے لئے جسم کے اندر چھپتی اور ادھر ادھر بھاگتی ہیں تو فرشتے سختی اور زور سے انہیں پکڑتے، کھینچتے اور مارتے ہیں۔ یہ مضمون اس سے قبل سورۂ انعام آیت 93 اور سورۂ انفال آیت50 میں بھی گزر چکا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 47

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَاۤ اَسْخَطَ اللّٰهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ۟۠

یہ اس بنا پر کہ یہ وه راه چلے جس سے انہوں نے اللہ کو ناراض کر دیا اور انہوں نے اس کی رضا مندی کو برا جانا، تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے. info
التفاسير:

external-link copy
29 : 47

اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ یُّخْرِجَ اللّٰهُ اَضْغَانَهُمْ ۟

کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ﻇاہر نہ کرے گا.(1) info

(1) أَضْغَانٌ ضِغْنٌ کی جمع ہے، جس کے معنی حسد، کینہ اور بغض کے ہیں۔ منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعناد تھا، اس کے حوالے سےکہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے؟

التفاسير: