Qurani Kərimin mənaca tərcüməsi - Urdu dilinə tərcümə - Məhəmməd Cunəkri.

دُخان

external-link copy
1 : 44

حٰمٓ ۟ۚۛ

حٰم. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 44

وَالْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ ۟ۙۛ

قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی. info
التفاسير:

external-link copy
3 : 44

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ ۟

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات(1) میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں.(2) info

(1) بابرکت رات «لَيْلَةٌ مُبَارَكَةٌ» سے مراد شب قدر «لَيْلَةُ الْقَدْرِ» ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ» (البقرة: 185) ”رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا“ «إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ» (سورة القدر) ”ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا“۔ یہ شب قدر رمضان کے عشرۂ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہو نے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے، (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے، اس رات کی عبادت ہزار مہینے (یعنی 83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلۂ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (صلى الله عليه وسلم) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اسی رات آپ پر قرآن نازل ہوا۔ یا یہ مطلب ہے کہ لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت و مصلحت 23 سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (صلى الله عليه وسلم) پر اترتا رہا۔ بعض لوگوں نے لیلۂ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، جب قرآن کی نص صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے تو اس سے شب براءت مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ علاوہ ازیں شب براء ت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں، جن میں اس کی فضیلت کا بیان ہے یا ان میں اسے فیصلے کی رات کہا گیا ہے، تو یہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں۔ یہ قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کس طرح کر سکتی ہیں؟
(2) یعنی نزول قرآن کا مقصد لوگوں کو نفع وضرر شرعی سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 44

فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ ۟ۙ

اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے.(1) info

(1) يُفْرَقُ، يُفَصَّلُ وَيُبَيَّنُ، فیصلہ کردیا جاتا اور یہ کام کو اس سے متعلق فرشتے کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ حکیم بمعنی پر حکمت کہ اللہ کا ہر کام ہی باحکمت ہوتا ہے یا بمعنی مُحْكَمٍ (مضبوط، پختہ) جس میں تغیر وتبدیلی کا امکان نہیں۔ صحابہ وتابعین سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس رات میں آنے والے سال کی بابت موت وحیات اور وسائل زندگی کے فیصلے لوح محفوظ سے اتار کر فرشتوں کے سپرد کردیے جاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 44

اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ؕ— اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ ۟ۚ

ہمارے پاس سے حکم ہوکر(1) ، ہم ہی ہیں رسول بناکر بھیجنے والے.(2) info

(1) یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم واذن اور ہماری تقدیر ومشیت سے ہوتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 44

رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟ۙ

آپ کے رب کی مہربانی سے(1) ۔ وه ہی ہے سننے واﻻ جاننے واﻻ. info

(1) یعنی انزال کتب کے ساتھ إِرْسَالُ رُسُلٍ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کردیا۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 44

رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۘ— اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ ۟

جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
8 : 44

لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ؕ— رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ ۟

کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا.(1) info

(1) یہ آیات بھی سورۂ اعراف کی آیت کی طرح ہیں، «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ» (سورۃ الاعراف:۔ 158)۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 44

بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ یَّلْعَبُوْنَ ۟

بلکہ وه شک میں پڑے کھیل رہے ہیں.(1) info

(1) یعنی حق اور اس کے دلائل ان کے سامنےآگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزا اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 44

فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ ۟ۙ

آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ﻇاہر دھواں ﻻئے گا.(1) info

(1) یہ ان کفار کے لیے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب کہ آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔ اس کے سبب نزول میں بتلایا گیا ہے کہ اہل مکہ کے معاندانہ رویئے سے تنگ آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ان کے لیے قحط سالی کی بددعا فرمائی، جس کے نتیجے میں ان پر قحط کا عذاب نازل کردیا گیا حتیٰ کہ وہ ہڈیاں، کھالیں، اور مردار وغیرہ تک کھانے پر مجبور ہوگئے، آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے انہیں دھواں سا نظر آتا۔ بالآخر تنگ آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عذاب ٹلنے پر ایمان لانے کا وعدہ کیا، لیکن یہ کیفیت دور ہوتے ہی ان کا کفر وعناد پھر اسی طرح عود کر آیا۔ چنانچہ پھر جنگ بدر میں ان کی سخت گرفت کی گئی۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر) بعض کہتے ہیں کہ قرب قیامت کی دس بڑی بڑی علامات میں سے ایک علامت دھواں بھی ہے جس سے کافر زیادہ متاثر ہوں گے اور مومن بہت کم۔ آیت میں اسی دھوئیں کا ذکر ہے۔ اس تفسیر کی رو سے یہ علامت قیامت کے قریب ظاہر ہوگی جب کہ پہلی تفسیر کی رو سے یہ ظاہر ہوچکی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اس کی شان نزول کے اعتبار سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوچکا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ تاہم علامات قیامت میں بھی اس کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، اس لیے وہ بھی اس کے منافی نہیں ہے، اس وقت بھی اس کا ظہور ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 44

یَّغْشَی النَّاسَ ؕ— هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

جو لوگوں کو گھیر لے گا، یہ دردناک عذاب ہے. info
التفاسير:

external-link copy
12 : 44

رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ ۟

کہیں گے کہ اے ہمارے رب! یہ آفت ہم سے دور کر ہم ایمان قبول کرتے ہیں.(1) info

(1) پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 44

اَنّٰی لَهُمُ الذِّكْرٰی وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ ۟ۙ

ان کے لیے نصیحت کہاں ہے؟ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبران کے پاس آچکے. info
التفاسير:

external-link copy
14 : 44

ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ ۟ۘ

پھر بھی انہوں نے ان سے منھ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا باؤﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
15 : 44

اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىِٕدُوْنَ ۟ۘ

ہم عذاب کو تھوڑا دور کردیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آجاؤ گے. info
التفاسير:

external-link copy
16 : 44

یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰی ۚ— اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ۟

جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے(1) ، بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں. info

(1) اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنالیے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے۔ اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
17 : 44

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِیْمٌ ۟ۙ

یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو (بھی) آزما چکے ہیں(1) جن کے پاس (اللہ) کا باعزت رسول آیا. info

(1) آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیوی خوشی، خوشحالی وفراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 44

اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ ؕ— اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۟ۙ

کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو میرے حوالے کر(1) دو، یقین مانو کہ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں.(2) info

(1) عِبَادَ اللهِ سے مراد یہاں موسیٰ (عليه السلام) کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنارکھا تھا۔ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔
(2) اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔

التفاسير: