(1) یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ (2) یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناًوہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
(3) اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔