(1) یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کے بجائے سردارانِ یہود یا سردارانِ قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم ان کا حکم عام ہے اور اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب وسنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا حال تو یہ ہوتا ہے ”إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“۔(النور: 51) کہ جب انہیں اللہ ورسول (صلى الله عليه وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ”سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ“ یہی لوگ کامیاب ہیں۔
(1) یعنی جب اپنے اس کرتوت کی وجہ سے عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں یا آپ (صلى الله عليه وسلم) سے زیادہ ہمیں وہاں انصاف ملے گا بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔
(1) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھیئے ! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو ودرگزر، وعظ ونصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہیئے۔
(1) مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ واستغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فعل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (صلى الله عليه وسلم) کا استخفاف کیا تھا۔ اسلئے اس کے ازالے کے لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس آنے کی تاکید کی۔
(1) اس آیت کی شان نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جوبارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر (رضي الله عنه) سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی ہے۔ صحیح واقعہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا جو رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی (صلى الله عليه وسلم) تک پہنچا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر (رضي الله عنه) کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا پھوپھی زاد ہے، اس پر یہ ایت نازل ہوئی (صحيح بخاري تفسير سورة النساء) آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت بھی منکرین حدیث کے لئے تو ہے ہی، دیگر افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قول امام کے مقابلے میں حدیثِ صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اس ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔