Qurani Kərimin mənaca tərcüməsi - Urdu dilinə tərcümə - Məhəmməd Cunəkri.

Səhifənin rəqəmi:close

external-link copy
54 : 10

وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ ؕ— وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۚ— وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۟

اور اگر ہر جان، جس نے ﻇلم (شرک) کیا ہے، کے پاس اتنا ہو کہ ساری زمین بھر جائے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچانے لگے(1) اور جب عذاب کو دیکھیں گے تو پشیمانی کو پوشیده رکھیں گے۔ اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا۔ اور ان پر ﻇلم نہ ہوگا. info

(1) یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کے لئے آمادہ ہوگا۔ لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا؟ مطلب یہ ہے کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
55 : 10

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کی ملک ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا وعده سچا ہے لیکن بہت سے آدمی علم ہی نہیں رکھتے. info
التفاسير:

external-link copy
56 : 10

هُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ۟

وہی جان ڈالتا ہے وہی جان نکالتا ہے اور تم سب اسی کے پاس ﻻئے جاؤ گے.(1) info

(1) ان آیات میں آسمان اور زمین کے درمیان ہرچیز اللہ تعالٰی کی ملکیت نامہ، وعدہ الٰہی کے برحق، زندگی اور موت پر اس کا اختیار ہے، جو ذات اتنے اختیار کی مالک ہے، اس کی گرفت سے بچ کر کوئی کہاں جاسکتا ہے۔ اور اس نے حساب کتاب کے لئے ایک دن مقرر کیا ہوا ہے۔ اسے کون ٹال سکتا ہے؟ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، وہ ایک دن ضرور آئے گا اور ہر نیک و بد کو اس کے عملوں کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔

التفاسير:

external-link copy
57 : 10

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ۙ۬— وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۟

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے (1) اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے (2)اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے.(3) info

(1) یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔
(2) یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔
(3) یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل آیت ۸۲ اور سورہ الم سجدہ آیت 44میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں)

التفاسير:

external-link copy
58 : 10

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ— هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے(1) ۔ وه اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وه جمع کر رہے ہیں. info

(1) خوشی، اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے یعنی ان کے دلوں میں فرحت اور اطمینان کی کفییت ہونی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوشی کے اظہار کے لیے جلسے جلوسوں کا چراغاں کا اور اس قسم کے غلط کام اور اسراف بےجا کا اہتمام کرو۔ جیسا کہ آج کل اہل بدعت اس آیت سے ”جشن عید میلاد“ اور اس کی غلط رسوم کا جواز ثابت کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
59 : 10

قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا ؕ— قُلْ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَی اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ ۟

آپ کہیے کہ یہ تو بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لیے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا(1) ۔ آپ پوچھیے کہ کیا تم کو اللہ نے حکم دیا تھا یا اللہ پر افترا ہی کرتے ہو؟ info

(1) اس سے مراد وہی بعض جانوروں کا حرام کرنا جو مشرکین اپنے بتوں کے ناموں پر چھوڑ کر کیا کرتے ہیں تھے، جس کی تفصیل سورہ انعام میں گزر چکی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
60 : 10

وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ ۟۠

اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا باندھتے ہیں ان کا قیامت کی نسبت کیا گمان ہے(1) ؟ واقعی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہے (2)لیکن اکثر آدمی شکر نہیں کرتے.(3) info

(1) یعنی قیامت والے دن اللہ تعالٰی ان سے کیا معاملہ فرمائے گا۔
(2) کہ وہ انسانوں کا دنیا میں فوراً مواخذا نہیں کرتا، بلکہ اس کے لئے ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں بلا تفریق مومن و کافر، سب کو دیتا ہے۔ یا جو چیزیں انسانوں کے لئے مفید اور ضروری ہیں، انہیں حلال اور جائز قرار دیا ہے، انہیں حرام نہیں کیا۔
(3) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے، یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
61 : 10

وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ ؕ— وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَلَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۟

اور آپ کسی حال میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو۔ اور آپ کے رب سے کوئی چیز ذره برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اورنہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے.(1) info

(1) اس آیت میں اللہ تعالٰی نے نبی (صلى الله عليه وسلم) اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور ہر لحظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ انعام، آیت 59میں گزر چکا ہےکہ ”اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہی جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے“ اسی طرح سورۂ انعام کی آیت 38، اور سورۂ ھود کی آیت 6 میں بھی اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات و اعمال سے کیوں کر بےخبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں؟۔

التفاسير: