(1) آسمان وزمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق وانفس میں بے شمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت پر ڈال ہیں۔
(2) یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال وجنوب کو، کبھی پورب پچھم (مشرق ومغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان۔ ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ دو یا دو سے زائد نہیں۔ تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ سارا اور ہر قسم کا تصرف صرف وہی کرتا ہے، کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ اسی مفہوم کی آیت سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 164 بھی ہے۔
(1) یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل وبراہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں، جن پر یہ ایمان لائیں گے؟ بَعْدَ اللهِ کا مطلب ہے، بَعْدَ حَدِيثِ اللهِ وَبَعْدَ آيَاتِهِ یہاں قرآن پر حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے۔ جیسے؛ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ (الزمر: 23) میں ہے۔
(1) یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔
(1) یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں ہے اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے استہزا اور مذاق کا موضوع بنالیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفرومعصیت پر اصرار واستکبار کی وجہ سے۔
(1) یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لیے قیامت میں جہنم ہے۔
(2) یعنی دنیا میں جو مال انہوں نے کمایا ہوگا، جن اولاد اور جتھے پر وہ فخر کرتے رہے ہوں گے، وہ قیامت والے دن انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔
(3) جن کو دنیا میں اپنا دوست، مددگار اور معبود بنا رکھا تھا، وہ اس روز ان کو نظر ہی نہیں آئیں گے، مدد تو انہوں نے کیا کرنی ہوگی؟
(1) یعنی قرآن۔ کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفروشرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔ اس لیے اس کے سرتا پا ہدایت ہونے میں تو کوئی شرک نہیں۔ لیکن ہدایت ملے گی تو اسے ہی جو اس کے لیے اپنا سینہ وا کرے گا۔ بصورت دیگر، توع راہ دکھلائیں گے رہرو منزل ہی نہیں۔ والا معاملہ ہوگا۔
(2) أَلِيمٍ، عَذَابٌ کی صفت ہے، بعض اسے رِجْزٌ کی صفت بتاتے ہیں۔ رِجْزٌ بمعنی عَذَابٍ شَدِيدٍ۔
(1) یعنی اس کو ایسا بنادیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے سے اس پر سفر کرسکو۔
(2) یعنی سمندروں میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، یہ تمہارا کمال اور ہنر نہیں یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیت ہے۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو سمندروں کی موجوں کو اتنا سرکش بنادیتا کہ کوئی کشتی اور جہاز ان کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکتا۔ جیسا کہ کبھی کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیےایسا کرتا ہے۔ اگر مستقل طور پر موجوں کی طغیانیوں کا یہی عالم رہتا تو تم کبھی بھی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
(3) یعنی تجارت کے ذریعے سے، اور اس میں غوطہ زنی کرکے موتی اور دیگر اشیا نکال کر اور دریائی جانوروں (مچھلی وغیرہ) کا شکار کرکے۔
(4) یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو جو اس تسخیر بحر کی وجہ سے تمہیں حاصل ہوتی ہیں۔
(1) مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کردیا ہے، تمہارے مصالح ومنافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج، روشن ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔