Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri

جاثیہ

external-link copy
1 : 45

حٰمٓ ۟ۚ

حٰم info
التفاسير:

external-link copy
2 : 45

تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ ۟

یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
3 : 45

اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۟ؕ

آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
4 : 45

وَفِیْ خَلْقِكُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ۟ۙ

اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وه پھیلاتا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
5 : 45

وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۟

اور رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کر دیتا ہے(1) ، (اس میں) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں.(2) info

(1) آسمان وزمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق وانفس میں بے شمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت پر ڈال ہیں۔
(2) یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال وجنوب کو، کبھی پورب پچھم (مشرق ومغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان۔ ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ دو یا دو سے زائد نہیں۔ تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ سارا اور ہر قسم کا تصرف صرف وہی کرتا ہے، کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ اسی مفہوم کی آیت سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 164 بھی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 45

تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ۚ— فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰیٰتِهٖ یُؤْمِنُوْنَ ۟

یہ ہیں اللہ کی آیتیں جنہیں ہم آپ کو راستی سے سنا رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کے بعد یہ کس بات پر ایمان ﻻئیں گے.(1) info

(1) یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل وبراہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں، جن پر یہ ایمان لائیں گے؟ بَعْدَ اللهِ کا مطلب ہے، بَعْدَ حَدِيثِ اللهِ وَبَعْدَ آيَاتِهِ یہاں قرآن پر حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے۔ جیسے؛ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ (الزمر: 23) میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 45

وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ ۟ۙ

ویل اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گنہگار پر.(1) info

(1) أَفَّاكٍ بمعنی كَذَّابٍ ، أَثِيمٍ، بہت گناہ گار۔ وَيْلٌ، بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام.

التفاسير:

external-link copy
8 : 45

یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰی عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا ۚ— فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟

جو آیتیں اللہ کی اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں(1) ، تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر (پہنچا) دیجئے. info

(1) یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 45

وَاِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْـَٔا ١تَّخَذَهَا هُزُوًا ؕ— اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ ۟ؕ

وه جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پالیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے(1) ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوائی کی مار ہے. info

(1) یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں ہے اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے استہزا اور مذاق کا موضوع بنالیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفرومعصیت پر اصرار واستکبار کی وجہ سے۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 45

مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ۚ— وَلَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَیْـًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ ۚ— وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۟ؕ

ان کے پیچھے دوزخ ہے(1) ، جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وه انہیں کچھ بھی نفع نہ(1) دے گا اور نہ وه (کچھ کام آئیں گے) جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز(2) بنا رکھا تھا، ان کے لیے تو بہت بڑا عذاب ہے. info

(1) یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لیے قیامت میں جہنم ہے۔
(2) یعنی دنیا میں جو مال انہوں نے کمایا ہوگا، جن اولاد اور جتھے پر وہ فخر کرتے رہے ہوں گے، وہ قیامت والے دن انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔
(3) جن کو دنیا میں اپنا دوست، مددگار اور معبود بنا رکھا تھا، وہ اس روز ان کو نظر ہی نہیں آئیں گے، مدد تو انہوں نے کیا کرنی ہوگی؟

التفاسير:

external-link copy
11 : 45

هٰذَا هُدًی ۚ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِیْمٌ ۟۠

یہ (سر تاپا) ہدایت(1) ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لیے بہت سخت دردناک عذاب ہے.(2) info

(1) یعنی قرآن۔ کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفروشرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔ اس لیے اس کے سرتا پا ہدایت ہونے میں تو کوئی شرک نہیں۔ لیکن ہدایت ملے گی تو اسے ہی جو اس کے لیے اپنا سینہ وا کرے گا۔ بصورت دیگر، توع راہ دکھلائیں گے رہرو منزل ہی نہیں۔ والا معاملہ ہوگا۔
(2) أَلِيمٍ، عَذَابٌ کی صفت ہے، بعض اسے رِجْزٌ کی صفت بتاتے ہیں۔ رِجْزٌ بمعنی عَذَابٍ شَدِيدٍ۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 45

اَللّٰهُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیْهِ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۟ۚ

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا(1) کو تابع بنادیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں(2) چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجاﻻؤ.(3) info

(1) یعنی اس کو ایسا بنادیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے سے اس پر سفر کرسکو۔
(2) یعنی سمندروں میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، یہ تمہارا کمال اور ہنر نہیں یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیت ہے۔ ورنہ اگر وہ چاہتا تو سمندروں کی موجوں کو اتنا سرکش بنادیتا کہ کوئی کشتی اور جہاز ان کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکتا۔ جیسا کہ کبھی کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیےایسا کرتا ہے۔ اگر مستقل طور پر موجوں کی طغیانیوں کا یہی عالم رہتا تو تم کبھی بھی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
(3) یعنی تجارت کے ذریعے سے، اور اس میں غوطہ زنی کرکے موتی اور دیگر اشیا نکال کر اور دریائی جانوروں (مچھلی وغیرہ) کا شکار کرکے۔
(4) یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو جو اس تسخیر بحر کی وجہ سے تمہیں حاصل ہوتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 45

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ ۟

اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے(1) ۔ جو غور کریں یقیناً وه اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے. info

(1) مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کردیا ہے، تمہارے مصالح ومنافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج، روشن ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔

التفاسير: