ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

رقم الصفحة:close

external-link copy
78 : 40

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَ ؕ— وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ— فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ ۟۠

یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی(1) نہیں کیے اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزه اللہ کی اجازت کے بغیر ﻻ سکے(2) پھر جس وقت اللہ کا حکم آئےگا(3) حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا(4) اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں ره جائیں گے. info

(1) اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو صرف 25 ، انبیا ورسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔
(2) آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے، جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے۔ کفار، پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ ، جیسے خود نبی کریم ﹲ سےکفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا، جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل 90- 93 میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا۔ کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کوکوئی معجزہ صادر کر کے دکھلا دے۔ یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا، بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے۔ بعض قوموں کو ان کے مطالبے پرمعجزہ دکھلاگیا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا۔ ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا۔ کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا، معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا۔ اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے، جو بعض اولیا کی طرف یہ باتیں منسوب کرتےہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے، خرق عادت امور (کرامات) کا اظہار کر دیتے تھے۔ جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں، جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا، جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کےلیے، اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیونکرمل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ کی حکمت و مشیت اس کی مقتضی نہ تھی، اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے، اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کر سکتا ہے؟
(3) یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آ جائے گا۔
(4) یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 40

اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ۟ؗ

اللہ وه ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے(1) جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو.(2) info

(1) اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سےبعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے، یہ نر، مادہ مل کر آٹھ ہیں جیساکہ سورۃ الانعام: 143- 144 میں ہے۔
(2) یہ سواری کےکام میں بھی آتےہیں، ان کادودھ بھی پیا جاتا ہے، (جیسے بکری، گائے اور اوٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور باربرادری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
80 : 40

وَلَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَیْهَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَعَلَیْهَا وَعَلَی الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ ۟ؕ

اور بھی تمہارے لیے ان میں بہت سے نفع ہیں(1) اور تاکہ اپنے سینوں میں چھپی ہوئی حاجتوں کو انہی پر سواری کر کے تم حاصل کر لو اور ان چوپایوں پر اور کشتیوں پر سوار کیے جاتے ہو.(2) info

(1) جیسے ان سب کے اون اور بالوں سے اور ان کی کھالوں سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کے دودھ سے گھی، مکھن، پنیر وغیرہ بھی بنتی ہیں۔
(2) ان سے مراد بچے اور عورتیں ہیں جنہیں ہودج سمیت اونٹ وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
81 : 40

وَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ ۖۗ— فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ ۟

اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جارہا ہے(1) ، پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کے منکر بنتے رہو گے.(2) info

(1) جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔
(2) یعنی یہ اتنی واضح، عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ یہ استہفام انکار کے لیے ہے۔

التفاسير:

external-link copy
82 : 40

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ؕ— كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً وَّاٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰی عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۟

کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا(1) ؟ جو ان سے تعداد میں زیاده تھے قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یادگاریں چھوڑی تھیں(2)، ان کے کیے کاموں نے انہیں کچھ بھی فائده نہیں پہنچایا.(3) info

(1) یعنی جن قوموں نے اللہ کی نافرمانی اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی، یہ ان کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات تو دیکھیں جو ان کے علاقوں میں ہی ہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا؟
(2) یعنی عمارتوں، کارخانوں اور کھیتیوں کی شکل میں، ان کے کھنڈرات واضح کرتے ہیں کہ وہ کاریگری کےمیدان میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔
(3) فَمَا أَغْنَى میں مَا استفہامیہ بھی ہو سکتا ہے اور نافیہ بھی۔ نافیہ کامﻔہوم تو ترجمے سے واضح ہے۔ کہ استفہامیہ کی رو سے مطلب ہوگا۔ ان کوکیا فائدہ پہنچایا؟ مطلب وہی ہے کہ ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہیں آئی۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 40

فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ ۟

پس جب بھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے(1) ، بالﺂخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وه ان پر الٹ پڑی. info

(1) علم سے مراد ان کے خود ساختہ مزعومات، توہمات، شبہات اور باطل دعوے ہیں۔ انہیں علم سے بطور استہزا تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے مزعومات و توہمات پر اتراتے اورفخر کرتے رہے۔ یا علم سےمراد دنیوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام و فرائض الٰہی کے مقابلے میں انہی کو ترجیح دیتے رہے۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 40

فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ ۟

ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان ﻻئے اور جن جن کو ہم اس کا شریک بنا رہے تھے ہم نے ان سب سے انکار کیا. info
التفاسير:

external-link copy
85 : 40

فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا ؕ— سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ ۚ— وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ ۟۠

لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کے ایمان نے انہیں نفع نہ دیا۔ اللہ نے اپنا معمول یہی مقرر کر رکھا ہے جو اس کے بندوں میں برابر چلا آ رہا ہے(1) ۔ اور اس جگہ کافر خراب وخستہ ہوئے.(2) info

(1) یعنی اللہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ عذاب دیکھنے کےبعد توبہ اور ایمان مقبول نہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔
(2) یعنی معاینہ عذاب کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں۔

التفاسير: