ترجمة معاني القرآن الكريم - الترجمة الأردية - محمد جوناكرهي

سورة غافر - غافر

external-link copy
1 : 40

حٰمٓ ۟ۚ

حٰم. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 40

تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ۟ۙ

اس کتاب کا نازل فرمانا(1) اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے.(2) info

(1) یا تَنْزِيلٌ ، مُنَزَّلٌ، منزل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں۔
(2) جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 40

غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ ؕ— لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ— اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ۟

گناه کا بخشنے واﻻ اور توبہ کا قبول فرمانے واﻻ(1) سخت عذاب واﻻ(2) انعام و قدرت واﻻ(3)، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے. info

(1) گزشتہ گناہوں کو معاف کرنے والا اورمستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والاہے۔ یا اپنے دوستوں کے لیے غافر ہے اور کافر ومشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنےوالا ہے۔ (2) ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد وطغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے۔ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (1) وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ (الحجر: 49۔ 50) ”میرے بندوں کوبتلا دو کہ میں غفورورحیم ہوں اورمیرا عذاب بھی نہایت درد ناک ہے“ قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیےگئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے۔ کیونکہ محض خوف ہی، انسان کو رحمت و مغفرت الٰہی سے مایوس کر سکتا ہے اورنری امید گناہوں پر دلیرکردیتی ہے۔
(3) طَوْلٌ کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں، یعنی وہی فراخی اور توانگری عطاکرنےوالا ہے۔ بعض کہتےہیں اس کےمعنی ہیں، انعام اور تفضل۔ یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 40

مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ ۟

اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں(1) جو کافر ہیں پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے.(2) info

(1) اس جھگڑے سےمراد ناجائز اور باطل جھگڑا (جدال) ہے جس کامقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال (بحث و مناظرہ) کامقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو، وہ مذموم نہیں نہایت محمود ومستحسن ہے۔ بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے، لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلا تَكْتُمُونَهُ (آل عمران: 187) ”تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا، اسے چھپانا نہیں“۔ بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل و براہین کوچھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پرکائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے، (البقرۃ: 159)۔
(2) یعنی یہ کافر و مشرک جو تجارت کرتے ہیں، اس کے لیے مختلف شہروں میں آتے جاتے اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مواخذۂ الٰہی میں آجائیں گے، یہ مہلت ضروردیئے جارہےہیں لیکن انہیں مہمل نہیں چھوڑاجائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 40

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّالْاَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۪— وَهَمَّتْ كُلُّ اُمَّةٍ بِرَسُوْلِهِمْ لِیَاْخُذُوْهُ وَجٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُهُمْ ۫— فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ ۟

قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کر لینے کا اراده کیا(1) اور باطل کے ذریعہ کج بحثیاں کیں، تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں(2) پس میں نے ان کو پکڑ لیا، سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی.(3) info

(1) تاکہ اسے قید یا قتل کردیں یا سزا دیں۔
(2) یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑاکیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔
(3) چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا،پس تم دیکھ لو ان کےحق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا نہیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 40

وَكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ۟

اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ﺛابت ہو گیا کہ وه دوزخی ہیں.(1) info

(1) مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں، اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدال بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے، پھرکوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 40

اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ— رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ۟

عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے.(1) info

(1) اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کی وضاحت ہے، یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئےہیں اور وہ جو عرش کے اردگرد ہیں۔ ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں، یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ، کمالات اور خوبیوں کا اس کے لیے اثبات اور اس کے سامنے عجز و تذلل یعنی (ایمان) کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسرا کام ا ن کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، کہا جاتا ہےکہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں، مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہو گی۔ (ابن کثیر)۔

التفاسير: