(1) ”أَنْفَالٌ“ نَفَلٌ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ اس مال واسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اسے نفل (زیادہ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے یا اس لیے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔
(2) یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کا رسول، اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو اسے تقسیم کرلو۔
(3) اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقویٰ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے۔ خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاج کے لیے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیراپھیری اور خیانت کا بھی امکاں رہتا ہے اس کے لیے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔
(1) ان آیات میں اہل ایمان کی 4 صفات بیان کی گئی ہیں; 1۔ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ 2۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ 3۔ تلاوت قرآن سے ان کے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) 4۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض وگریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کارفرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لیے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین واعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد واعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لیے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ اور مغفرت ورحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے ۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنْهُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرما لے)۔
جنگ بدر کا پس منظر: جنگ بدر، جو ٢ ہجری میں ہوئی، کافروں کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی۔ نیز بے سروسامانی کی وجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصراً اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابوسفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا، چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سا مال واسباب ہجرت کی وجہ سے مکہ رہ گیا تھا، یا کافروں نے چھین لیا تھا، نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا، ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے اس تجارتی قافلے پر حملے کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابوسفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے، مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابوجہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (صلى الله عليه وسلم) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
(1) یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمانوں کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا، اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مدبھیڑ ہوجانا، گو بعض طبائع کے لیے ناگوار تھا، لیکن اس میں بھی بالاخر فائدہ مسلمانوں ہی کا ہوگا۔
(2) یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند ایک افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ بھی صرف بے سروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔
(1) یعنی یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔
(2) یہ بے سروسامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھیں، اس کا اظہار ہے۔
(1) یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال واسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقابلہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔
(2) یعنی تجارتی قافلہ، تاکہ بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔
(1) لیکن اللہ اس کے برعکس یہ چاہتا تھا کہ لشکر قریش سے تمہاری جنگ ہو تاکہ کفر کی قوت وشوکت ٹوٹ جائے گو یہ امر مجرموں (مشرکوں) کے لیے ناگوار ہی ہو۔