የቅዱስ ቁርዓን ይዘት ትርጉም - የኡርዱኛ ትርጉም - በመሐመድ ጆናክሬ

የገፅ ቁጥር:close

external-link copy
45 : 6

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ؕ— وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟

پھر ﻇالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔(1) info

(1) اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (دھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحة 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی (صلى الله عليه وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں «أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر ومعاصی کا صلہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
46 : 6

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖ ؕ— اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ ۟

آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت بالکل لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہے کہ یہ تم کو پھر دے دے۔ آپ دیکھئے تو ہم کس طرح دﻻئل کو مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔(1) info

(1) آنکھیں، کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضاء وجوارح ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضاء ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضاء کو ویسے ہی ختم کردے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، مگر یہ کہ وہ خود کسی کو بچانا چاہے۔ آیات کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب وترہیب کے ذریعے سے، اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔

التفاسير:

external-link copy
47 : 6

قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ ۟

آپ کہئے کہ یہ بتلاؤ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ پڑے خواه اچانک یا اعلانیہ تو کیا بجز ﻇالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا۔(1) info

(1) ”بَغْتَةً“ (بےخبری) سے مراد رات اور ”جَهْرَةً“ (خبرداری) سے دن مراد ہے، جسے سورۂ یونس میں بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا (سورة يونس: 50) سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آجائے یا رات کو۔ یا پھربَغْتَةً وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آجائے اورجَهْرَةً وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر وطغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاوز کرجاتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
48 : 6

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۚ— فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟

اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وه بشارت دیں اور ڈرائیں(1) پھر جو ایمان لے آئے اور درستی کرلے سو ان لوگوں پر کوئی اندیشہ نہیں اور نہ وه مغموم ہوں گے۔(2) info

(1) وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جزیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھا ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔
(2) مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انہیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر وہ مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں ہی جہانوں کا رب ہے۔

التفاسير:

external-link copy
49 : 6

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۟

اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلائیں ان کو عذاب پہنچے گا بوجہ اس کے کہ وه نافرمانی کرتے ہیں۔(1) info

(1) یعنی ان کو عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر وتکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کے محارم ومناہی کا ارتکاب بلکہ اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔

التفاسير:

external-link copy
50 : 6

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ ۚ— اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤی اِلَیَّ ؕ— قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ ؕ— اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ ۟۠

آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہو(1) ں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے(2)۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ info

(1) میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت وطاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن ومشیت کے بغیر کوئی ایسا بڑا معجزہ صادر کرکے دکھا سکوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر تمہیں میری صداقت کا یقین ہوجائے۔ میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات میں تمہیں مطلع کر دو، مجھے فرشتہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کہ تم مجھے ایسے خرق عادات امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ”أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ“ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) ہی ہے۔
(2) یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا، گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن وکافر برابر نہیں ہوسکتے۔

التفاسير:

external-link copy
51 : 6

وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰی رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ۟

اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع، اس امید پر کہ وه ڈر جائیں۔(1) info

(1) یعنی انذار کا فائدہ ایسی ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، ورنہ جو بعث بعد الموت اور حشر ونشر پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے کفر وجحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا رد بھی ہے جو اپنے آبا اور اپنے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب، یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے تو اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر وشرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن وموحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔

التفاسير:

external-link copy
52 : 6

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ ؕ— مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۟

اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح وشام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ﻇلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔(1) info

(1) یعنی یہ بےسہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکین کے اس طعن یا مطالبہ سے کہ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تمہارے اردگرد توغربا وفقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انہیں ہٹاو تو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی حساب ان کے متعلق نہیں اور ان کا آپ کے متعلق نہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کے شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بےوسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور ان سے وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہوں۔

التفاسير: