(1) یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسی (عليه السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، اس کی تکذیب کرنے والے نہیں، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (عليه السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود بھی یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی تکذیب کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص واہانت کی۔
(2) یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات وانجیل اور دیگر صحائف آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت ونجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا۔ یہ گویا اسی بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح وکامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا، سرخرو رہے گا۔ جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ (وحدت ادیان) کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی، اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی، انجیل پر عمل کرنا جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لئے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمدی (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو، سورۂ بقرہ آیت 62 کا حاشیہ۔
(1) اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تک تھا، جب تک حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدی پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی اتباع کرے گا۔
(1) ہر آسمانی کتاب اپنے سے ماقبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُهَيْمِنٌ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف وتغییر بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو یہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔
(2) اس سے پہلے آیت نمبر 42 میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔
(3) یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کے خود ساختہ مزعومات وافکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟
(4) اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی تو دوسری میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لحاظ سے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ”نَحْنُ مَعَاشِرَ الأَنْبِيَاءِ إِخْوَةٌ لِعَلاَّتٍ، دِينُنَا وَاحِدٌ“ (صحيح بخاري) ”ہم انبیا کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے“۔ علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔
(5) یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔
(1) اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور طالب ہیں؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لئے ہے اور (فا) لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ”يُعْرِضُونَ عَنْ حُكْمِكَ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ وَيَتَوَلَّوْنَ عَنْهُ، يَبْتَغُونَ حُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ“ (تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں) (فتح القدیر)
(2) حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثَةٌ: مُبْتَغٍ فِي الإِسْلامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَطَالِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لْيُرِيقَ دَمَهُ“ (صحيح بخاري- كتاب الديات) ”اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور جو ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔“