《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。

页码:close

external-link copy
29 : 31

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ؗ— كُلٌّ یَّجْرِیْۤ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّاَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۟

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں کھپا دیتا ہے[1] ، سورج چاند کو اسی نے فرماں بردار کر رکھا ہے ہر ایک مقرره وقت تک چلتا رہے[2]، اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے. info

[1] یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کر دیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کر دیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہو جاتا ہے۔ جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔
[2] مقررہ وقت تک سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع وغروب کا یہ نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے، قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا دوسرا مطلب ہے ایک متعینہ منزل تک یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لئے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابوذر (رضي الله عنه) سے فرمایا: جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا (غروب ہوتا) ہے؟ ابوذر (رضي الله عنه) کہتے ہیں، میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول (صلى الله عليه وسلم) خوب جانتے ہیں فرمایا: اس کی آخری منزل عرش الٰہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر (وہاں سے نکلنے کی) اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے گا۔ ارجعي من حيث جئت تو جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ جیسا کہ قرب قیامت کی علامت میں آتا ہے۔ (صحيح بخاري ، كتاب التوحيد ـ ومسلم، كتاب التوحيد، ومسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الزمن الذي لا يقبل فيه الإيمان) حضرت ابن عباس (رضي الله عنهما) فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہو جاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔ (ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 31

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ ۙ— وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ ۟۠

یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں[1] سب باطل ہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بلندیوں واﻻ اور بڑی شان واﻻ ہے.[2] info

[1] یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ سب اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا۔
[2] اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبت اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 31

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِیُرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِهٖ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ۟

کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وه تمہیں اپنی نشانیاں دکھاوے[1] ، یقیناً اس میں ہر ایک صبر وشکر کرنے والے[2] کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں. info

[1] یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف وکرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے۔ اس نے ہوا اور پانی دونوں کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں، ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہو جائے۔
[2] تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 31

وَاِذَا غَشِیَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۚ۬— فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ؕ— وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ ۟

اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وه (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں[1] ۔ پھر جب وه (باری تعالیٰ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں[2]، اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں.[3] info

[1] یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انہیں اپنی گرفت میں لیتا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی الہٰ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے۔
[2] بعض نے مُقْتَصِدٌ کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا، فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ كَاَفِرٌ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں (فتح القدیر) دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں اعتدال پر رہنے والا یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنی ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی، انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت واطاعت نہیں کرتا؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے، مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں، نہ کہ اعتدال کا۔(ابن کثیر) مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔
[3] خَتَّارٍ غدار کے معنی میں ہے۔ بدعہدی کرنے والا، کفور ناشکری کرنے والا۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 31

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ ؗ— وَلَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْـًٔا ؕ— اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ— وَلَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ ۟

لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے واﻻ ہوگا[1] (یاد رکھو) اللہ کا وعده سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے. info

[1] جَازٍ اسم فاعل ہے جَزَى يَجْزِي سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے لئے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہر شخص کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی؟ اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے؟

التفاسير:

external-link copy
34 : 31

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ— وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ۚ— وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ؕ— وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ؕ— وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ۟۠

بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا[1] ۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم واﻻ اور صحیح خبروں واﻻ ہے. info

[1] حدیث میں بھی آتا ہے کہ ”پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة لقمان وكتاب الاستسقاء باب لا يدري متى يجيء المطر إلا لله) 1 قرب قیامت کی علامت تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بیان فرمائی ہے لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو۔ 2 بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ آثار وعلائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ ومشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتیٰ کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ 3 رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یابچی؟ لیکن ماں کے پیٹ، میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل۔ خوب رو ہوگا کہ بدشکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ 4 انسان کل کیا کرے گا؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟ اور اگر آئے گا تووہ اس کیا کچھ کرے گا؟ 5 موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر، اپنے وطن میں یا دیار غیر میں، جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ کسی کومعلوم نہیں۔

التفاسير: