[1] تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو (یہاں کام سے لگا دیا) سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوق، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشاء استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان وزمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)۔
[2] ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک واحساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔
[3] یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں، کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام وشرائع کے بارے میں۔
[1] یعنی طرفگی یہ ہے کہ ان کےپاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی صحیفہ آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔
[1] یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے، اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔
[2] یعنی مامور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔
[3] یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لےلیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔
[1] اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔
[2] یعنی ان کےعملوں کی جزا دے گا۔
[3] پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔
[1] یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہوں گے؟ یہ دنیا اور اس کی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔
[1] یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمان وزمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔
[2] اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔
[1] یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر ومتصرف کائنات بھی وہی۔
[2] بے نیاز ہے اپنے ماسوا سے، یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
[3] اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نےجو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان وزمین میں سزا وار حمد ثنا، صرف اسی کی ذات ہے۔
[1] اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا اور اس کے وہ کلمات جو اس کی عظمتوں پر دلالت کناں ہیں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی کنہ اور حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی ان کو شمار کرنا اور حیطۂ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی کی بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کے تخلیق وصنعت کے عجائبات اور اس کی عظمت وجلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ کی آیات وکلمات کا حصرواحصا ممکن ہی نہیں (ابن کثیر) اسی مفہوم کی آیت سورۂ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔
[1] یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنا، ایک نفس کے زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے کہ وہ جو چاہتا ہے لفظ كُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔