Қуръони Карим маъноларининг таржимаси - Урдуча таржима - Муҳаммад Жунакарҳи

Бет рақами:close

external-link copy
31 : 7

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ؕۚ— اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ۟۠

اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو(1) ۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(2) info

(1) آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔
(2) ”إِسْرَافٌ“ (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جو چاہو، کھاوء۔ جو چاہو پہنو! البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبرسے“ (صحيح بخاري، كتاب اللباس، باب قول الله تعالى قل من حرم زينة الله) بعض سلف کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرمادی ہے۔ (ابن کثیر )
بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لئے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت (گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا) ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عید کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا حصہ ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
32 : 7

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ؕ— قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ— كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۟

آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں(1) ۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ info

(1) مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح بعض حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں (جیسا کہ بعض صوفیا بھی ایسا کرتے ہیں) نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں، انہیں کون حرام کرنے والا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے حرام کرلینے سے اللہ کی حلال کردہ چیزیں حرام نہیں ہو جائیں گی، وہ حلال ہی رہیں گی۔ یہ حلال و طیب چیزیں اصلاً اللہ نے اہل ایمان ہی کے لئے بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور متمتع ہو لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دنیوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے۔ تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لئے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات و مشروبات بھی حرام ہوں گے۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 7

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۟

آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں(1) اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو(2) اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔ info

(1) علانیہ فحش باتوں سے مراد بعض کے نزدیک طوائفوں کے اڈوں پر جاکر بدکاری اور پوشیدہ سے مراد کسی ”گرل فرینڈ“ سے خصوصی تعلق قائم کرنا ہے۔ بعض کے نزدیک اول الذکر سے مراد محرموں سے نکاح کرنا ہے جو ممنوع ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک صورت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہے اور ہر قسم کی ظاہری بے حیائی کو شامل ہے (جیسے فلمیں، ڈرامے ، ٹی وی، وی سی آر، فحش اخبارات ورسائل، رقص وسرود اور مجروں کی محفلیں، عورتوں کی بے پردگی اور مردوں سے ان کا بے باکانہ اختلاط، مہندی اور شادی کی رسموں میں بے حیائی کے کھلے عام مظاہر وغیرہ، یہ سب فواحش ظاہرہ ہیں)۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا۔
(2) گناہ، اللہ کی نافرمانی کا نام ہے اور ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور لوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو برا سمجھے“۔ (صحیح مسلم، کتاب البر) بعض کہتے ہیں گناہ وہ ہے جس کا اثر، کرنے والے کی اپنی ذات تک محدود ہو اور بغی یہ ہے کہ اس کے اثرات دوسروں تک بھی پہنچیں یہاں بغی کے ساتھ بغیر الحق کا مطلب، ناحق، ظلم وزیادتی مثلاً لوگوں کا حق غصب کرلینا، کسی کا مال ہتھیا لینا، ناجائز مارنا پیٹنا اور سب و شتم کرکے بے عزتی کرنا وغیرہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 7

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ— فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ۟

اور ہر گروه کے لئے ایک میعاد معین(1) ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔ info

(1) میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت وسرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک ممتد ہوتی ہے۔ یعنی دنیوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی وہ سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کر دیتا ہے، ان کی اجل مسمیٰ وہ ہے جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 7

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ ۙ— فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟

اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے۔(1) info

(1) یہ ان اہل ایمان کا حسن انجام بیان کیا گیا ہے جو تقویٰ اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے۔ قرآن نے ایمان کے ساتھ، اکثر جگہ، عمل صالح کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 7

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وه لوگ دوزخ والے ہوں گے وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(1) info

(1) اس میں اہل ایمان کے برعکس ان لوگوں کا برا انجام بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے احکام کی تکذیب اور ان کے مقابلے میں استکبار کرتے ہیں۔ اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کا انجام بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کردار کو اپنائیں جس کا انجام اچھا ہے اور اس کردار سے بچیں جس کا انجام برا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 7

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ ؕ— حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْ ۙ— قَالُوْۤا اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ؕ— قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَهِدُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ ۟

سو اس شخص سے زیاده ﻇالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے، ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وه ان کو مل جائے گا(1) ، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وه کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وه کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔ info

(1) اس کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں۔ ایک معنی عمل، رزق اور عمر کے کئے گئے ہیں۔ یعنی ان کے مقدر میں جو عمر اور رزق ہے اسے پورا کر لینے، اور جتنی عمر ہے، اس کو گزار لینے کے بعد بالآخر موت سے ہمکنار ہوں گے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے «إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لا يُفْلِحُونَ، مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ» الآية (يونس: 69 ، 70) ”جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ کاﻣیاب نہیں ہوں گے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر، بالآخر ہمارے پاس ہی انہیں لوٹ کر آنا ہے۔“

التفاسير: