Қуръони Карим маъноларининг таржимаси - Урдуча таржима - Муҳаммад Жунакарҳи

Бет рақами:close

external-link copy
131 : 6

ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ ۟

یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے(1) بے خبر ہوں۔ info

(1) یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۂ فاطر آیت 24، سورۂ نحل 26، سورۂ بنی اسرائیل 15 اور سورۂ ملک 8 ، 9 وغیرہا میں بیان کی گئی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
132 : 6

وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ؕ— وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۟

اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب(1) ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ info

(1) یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق وتفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔

التفاسير:

external-link copy
133 : 6

وَرَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ ؕ— اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ ۟ؕ

اور آپ کا رب بالکل غنی ہے رحمت واﻻ ہے(1) ۔ اگر وه چاہے تو تم سب کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ آباد کردے جیسا کہ تم کو ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔(2) info

(1) وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لئے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لئے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔
(2) یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست ونابود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ (مزید ملاحظہ ہو سورۂ نساء: 133، سورۂ ابراہیم: 20، سورۂ فاطر: 15۔ 17 ،سورۂ محمد: 38)

التفاسير:

external-link copy
134 : 6

اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ ۙ— وَّمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۟

جس چیز کا تم سے وعده کیا جاتا ہے وه بے شک آنے والی چیز ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے۔(1) info

(1) اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کرسکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔

التفاسير:

external-link copy
135 : 6

قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ ۚ— فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۙ— مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ؕ— اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۟

آپ یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کررہا ہوں(1) ، سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لیے نافع ہوگا۔ یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔(2) info

(1) یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ» (سورة هود: 121۔122) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاوء ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔ (2) جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، 8 / ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
136 : 6

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا ۚ— فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىِٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰهِ ۚ— وَمَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَكَآىِٕهِمْ ؕ— سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ ۟

اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے(1) ، پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وه تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی(2) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وه ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے(2) کیا برا فیصلہ وه کرتے ہیں۔ info

(1) اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرﭺ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرﭺ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
(2) یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔
(3) ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرﭺ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آﺝ کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
137 : 6

وَكَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ ؕ— وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ ۟

اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے خیال میں ان کے معبودوں نے ان کی اوﻻد کے قتل کرنے کو مستحسن بنا رکھا ہے(1) تاکہ وه ان کو برباد کریں اور تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کردیں(2) اور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ ایسا کام نہ کرتے(3) تو آپ ان کو اور جو کچھ یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں یونہی رہنے دیجئے۔ info

(1) یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔
(2) یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔
(3) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔

التفاسير: