(1) یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۂ فاطر آیت 24، سورۂ نحل 26، سورۂ بنی اسرائیل 15 اور سورۂ ملک 8 ، 9 وغیرہا میں بیان کی گئی ہے۔
(1) یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے باہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق وتفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہوں گے۔
(1) وہ غنی (بے نیاز) ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لئے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لئے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لئے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔
(2) یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیرمحدود قدرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹادیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست ونابود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ (مزید ملاحظہ ہو سورۂ نساء: 133، سورۂ ابراہیم: 20، سورۂ فاطر: 15۔ 17 ،سورۂ محمد: 38)
(1) اس سے مراد قیامت ہے۔ (اور تم عاجز نہیں کرسکتے) کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔
(1) یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے بھی واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ، وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ» (سورة هود: 121۔122) ”جو ایمان نہیں لاتے، ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاوء ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں“۔ (2) جیسا کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھایا، 8 / ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کے فتح کے بعد عرب قبائل فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرۂ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا اور یہ دائرہ پھر پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔
(1) اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرﭺ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرﭺ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔
(2) یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔
(3) ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرﭺ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آﺝ کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
(1) یہ اشارہ ہے ان کے بچیوں کے زندہ درگور کر دینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔
(2) یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔
(3) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقیناً یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔