قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی

صفحہ نمبر:close

external-link copy
19 : 6

قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ؕ— قُلِ اللّٰهُ ۫— شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ ۫— وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَغَ ؕ— اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰی ؕ— قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُ ۚ— قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ۟ۘ

آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواه ہے(1) اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں(2) کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وه تو ایک ہی معبود ہے اور بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ info

(1) یعنی اللہ تعالیٰ ہی اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔
(2) ربیع بن انس (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ اب جس کے پاس بھی یہ قرآن پہنچ جائے۔ اگر وہ سچا متبع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اس طرح ڈرائے جس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے لوگوں کو ڈرایا۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
20 : 6

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ ۘ— اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟۠

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وه لوگ رسول کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہنچانتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈاﻻ ہے سو وه ایمان نہیں ﻻئیں گے۔ info

(1) ”يَعْرِفُونَهُ“ میں ضمیر کا مرجع رسول (صلى الله عليه وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صفات ان کتابوں میں بیان کی گئی تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔
فَإِنْ كُنْتَ لا تَدْرِي فَتِلْكَ مُصِيبَةٌ وَإِنْ كُنْتَ تَدْرِي فَالْمُصِيبَةُ أَعْظَمُ ”اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے“۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 6

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ ؕ— اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۟

اور اس سے زیاده بےانصاف کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اللہ کی آیات کو جھوٹا بتلائے(1) ایسے بےانصافوں کو کامیابی نہ ہوگی۔(2) info

(1) یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اسی طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوائے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کئے ہیں اور یوں یقیناً نبی (صلى الله عليه وسلم) کی یہ پیش گوئی پوری ہوگئی کی تیس جھوٹے دجال ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گذشتہ صدی میں بھی قادیان کے ایک شحض نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آج اس کے پیروکار اسے اس لئے سچا نبی اوربعض مسیح موعود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔
(2) جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ مفتری (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ مکذب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 6

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ۟

اور وه وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جس روز ہم ان تمام خلائق کو جمع کریں گے، پھر ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تمہارے وه شرکا، جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے، کہاں گئے؟ info
التفاسير:

external-link copy
23 : 6

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ ۟

پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وه یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے۔(1) info

(1) فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں۔ بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کرکے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں «ثُمَّ لَمْ يَكُنْ قِيلُهُمْ عِنْدَ فِتْنَتِنَا إِيَّاهُمْ اعْتِذَارًا مِمَّا سَلَفَ مِنْهُمْ مِنَ الشِّرْكِ بِاللهِ»۔ ”جب ہم انہیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں انہوں نے جو شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے چارہ نہیں ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے“ یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی، پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں کے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کرکے اپنے شرک کرنے سے ہی انکار کردیں گے تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤ ں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور پھر یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
24 : 6

اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۟

ذرا دیکھو تو انہوں نے کس طرح جھوٹ بوﻻ اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وه جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے وه سب غائب ہوگئے۔(1) info

(1) لیکن وہاں اس کذب صریح کا کوئی فائدہ انہیں نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو وہ اللہ کا شریک اپنا حمایتی ومددگار سمجھتے تھے، غائب ہوں گے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 6

وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ ۚ— وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ؕ— وَاِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا ؕ— حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوْكَ یُجَادِلُوْنَكَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۟

اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں(1) اور ہم نے ان کے دلوں پر پرده ڈال رکھا ہے اس سے کہ وه اس کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے(2) اور اگر وه لوگ تمام دﻻئل کو دیکھ لیں تو بھی ان پر کبھی ایمان نہ ﻻئیں، یہاں تک کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواه مخواه جھگڑتے ہیں، یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے چلی آ رہی ہیں۔(3) info

(1) یعنی یہ مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔
(2) علاوہ ازیں مُجَازَاةً عَلَى كُفْرِهِمْ ان کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوﮞ میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصراور ان کے کان حق کو سننےسے عاجز ہیں۔
(3) اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد وجحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 6

وَهُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَیَنْـَٔوْنَ عَنْهُ ۚ— وَاِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۟

اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور دور رہتے ہیں(1) اور یہ لوگ اپنے ہی کو تباه کر رہے ہیں اور کچھ خبر نہیں رکھتے۔(2) info

(1) یعنی عام لوگوں کو آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔
(2) لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا بگڑے گا؟ اس طرح کے کام کرکے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 6

وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۟

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں(1) تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہو جائیں۔(2) info

(1) یہاں ”لَوْ“ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہو گی طتو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا“۔
(2) لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً«رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ، قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِ» (المؤمنون: 107، 108) ”اے ہمارے رب! ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اسی میں ذلیل وخوار پڑے رہو، مجھ سے بات نہ کرو“۔ «رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ»(الم السجدة: 12) ”اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، اب ہمیں یقین آگیا ہے“۔

التفاسير: