(1) ہم ایسےلوگوں کےحق میں اس سے کیوں کر کچھ کہہ سکتے یں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لےکر آئے لیکن انہوں نے پروا نہیں کی؟
(2) یعنی بالآخروہ تو خود ہی اللہ سے فریادکریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اب آخرت تو، ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔
(1) یعنی ان کےدشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کردیئے گئے، جیسے حضرت یحیٰی و زکریا علیہما السلام وغیر ھما ا ور بعض ہجرت پر مجبور ہو گئے، جیسے ابراہیم (عليه السلام) اور ہمارے پیغمبر ﹲ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین، وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ دراصل وہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے،اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر بعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت یحیٰی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالی نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا، جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا، جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کو سولی دےکر مارنا چاہا، اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انھوں نے یہودیوں کوخوب ذلت کا عذاب چکھایا۔ پیغمبر اسلام ﹲ اور ان کے رفقا یقیناً ہجرت پرمجبور ہوئے لیکن اس کےبعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوۂ خیبراور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا،اس کے بعد اللہ کی مدد کرنےمیں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ (ابن کثیر)۔
(2) أَشْهَادٌ، شَهِيدٌ (گواہ) کی جمع ہے۔ جیسے شریف کی جمع اشراف ہے۔ قیامت والے دن فرشتے اور انبیا علہیم السلام گواہی دیں گے۔ یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یااللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم ﹲ بھی گواہی دیں گے۔ جیساکہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ اس لیے قیامت کو گواہوں کےکھڑا ہونے کاﺩن کہا گیاہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کامطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
(1) یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اورمعذرت کا فائدہ اس لیے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لیے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔
(1) یعنی نبوت اور تورات عطاکی۔ جیسےفرمایا، «إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ» (المائدة: 44)۔
(2) یعنی تورات، حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سےمراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔
(1) هُدًى وَذِكْرَى مصدر ہیں اور حال کی جگہ واقع ہیں، اس لیے منصوب ہیں۔ بمعنی هَادٍ اور مُذَكِّرٍ ہدایت دینےوالی اور نصیحت کرنے والی۔ عقل مندوں سےمراد عقل سلیم کے مالک ہیں۔ کیونکہ وہی آسمانی کتابوں سے فائدہ اٹھاتےاور ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بےخبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟
(1) گناہ سے مراد وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں۔ جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر وثواب کی زیادتی کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔
(2) عَشِيٌّ سے،دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور أَبْكَارٌ سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔
(1) یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کامﻘﺼﺪ ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو، وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔
(1) یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ جب کہ یہ کام آسمان و زمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔
(1) مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مومن و کافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں، بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔