(1) أَشْرَارٌ سے مراد فقراء مومنین ہیں۔ جیسے عمار، خباب، صہیب، بلال وسلیمان وغیرہم۔ (رضي الله عنهم) ، انہیں روسائے مکہ ازراہ خبث (برےلوگ) کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔
(1) یعنی جو تم گمان کرتے ہو، میں وہ نہیں ہوں بلکہ تمہیں اللہ کے عذاب اور اس کےعتاب سے ڈرانے والا ہوں۔
(1) ملأ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث وتکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم (عليه السلام) کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔
(1) یعنی میری ذمے داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض وسنن تمہیں بتا دوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے اور ان محرکات ومعاصی کی وضاحت کردوں جن کے اجتناب سے تم رضائے الٰہی کے اور بصورت دیگر اس کے غضب وعقاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ یہی وہ انذار ہے جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔
(1) یہ قصہ اس سے قبل سورۂ بقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں بیان ہو چکا ہے۔ اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔
(2) یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس کے لئے وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے۔
(1) یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کےتمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔
(2) ) یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کےپھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف وعظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔
(3) یہ سجدۂ تحیہ یا سجدۂ تعظیم ہے، سجدۂ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (عليه السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے“۔ (مشكاة كتاب النكاح، باب عشرة النساء ، بحواله ترمذي وقال الألباني، وهو حديث صحيح لشواهده)۔
(1) یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے اسے تعظیماً سجدہ کیا۔ كُلُّهُمْ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فرشتہ بھی سجدہ کرنے میں پیچھے نہیں رہا۔ اس کے بعد أَجْمَعُونَ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ سجدہ بھی سب نے بیک وقت ہی کیا ہے۔ مختلف اوقات میں نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تاکید درتاکید تعمیم میں مبالغے کے لئے ہے۔ (فتح القدیر)۔
(1) اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا، بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔
(2) یہ کان صَارَ کے معنی میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔
(1) یہ بھی انسان کے شرف وعظمت کے اظہار ہی کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔
(1) یعنی شیطان نے اپنے زعم فاسد میں یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر متجانس (ہم جنس یا قریب قریب ایک درجے میں) ہیں۔ ان میں سے کسی کو، دوسرے پر شرف کسی عارض (خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم (عليه السلام) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف وعظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا ہے، جبکہ مٹی اس کے برعکس انواع واقسام کی پیداوار کا موخذ ہے۔