قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ - اردو ترجمہ - محمد جوناگڑھی

صفحہ نمبر:close

external-link copy
62 : 38

وَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰی رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ ۟ؕ

اور جہنمی کہیں گے کیا بات ہے کہ وه لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے.(1) info

(1) أَشْرَارٌ سے مراد فقراء مومنین ہیں۔ جیسے عمار، خباب، صہیب، بلال وسلیمان وغیرہم۔ (رضي الله عنهم) ، انہیں روسائے مکہ ازراہ خبث (برےلوگ) کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
63 : 38

اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِیًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ ۟

کیا ہم نے ہی ان کا مذاق بنا رکھا تھا(1) یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں.(2) info

(1) یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے؟
(2) یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں؟

التفاسير:

external-link copy
64 : 38

اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ ۟۠

یقین جانو کہ دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور ہی ہوگا.(1) info

(1) یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے، جس میں تخلف نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
65 : 38

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنْذِرٌ ۖۗ— وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۟ۚ

کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف خبردار کرنے واﻻ ہوں(1) اور بجز اللہ واحد غالب کے اور کوئی ﻻئق عبادت نہیں. info

(1) یعنی جو تم گمان کرتے ہو، میں وہ نہیں ہوں بلکہ تمہیں اللہ کے عذاب اور اس کےعتاب سے ڈرانے والا ہوں۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 38

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ ۟

جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وه زبردست اور بڑا بخشنے واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
67 : 38

قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ ۟ۙ

آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہت بڑی خبر ہے.(1) info

(1) یعنی میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی خبر ہے، جس سے اعراض وغفلت نہ برتو، بلکہ اس پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 38

اَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُوْنَ ۟

جس سے تم بے پرواه ہو رہے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
69 : 38

مَا كَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰۤی اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ ۟

مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وه تکرار کر رہے تھے.(1) info

(1) ملأ اعلیٰ سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث وتکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم (عليه السلام) کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 38

اِنْ یُّوْحٰۤی اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۟

میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صاف صاف آگاه کر دینے واﻻ ہوں.(1) info

(1) یعنی میری ذمے داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض وسنن تمہیں بتا دوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے اور ان محرکات ومعاصی کی وضاحت کردوں جن کے اجتناب سے تم رضائے الٰہی کے اور بصورت دیگر اس کے غضب وعقاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ یہی وہ انذار ہے جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
71 : 38

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ۟

جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا(1) کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا(2) کرنے واﻻ ہوں. info

(1) یہ قصہ اس سے قبل سورۂ بقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں بیان ہو چکا ہے۔ اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔
(2) یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس کے لئے وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 38

فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ ۟

سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں(1) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں(2)، تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا.(3) info

(1) یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کےتمام اجزا درست اور برابر کر لوں۔
(2) ) یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کےپھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہو جائے گا۔ انسان کے شرف وعظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔
(3) یہ سجدۂ تحیہ یا سجدۂ تعظیم ہے، سجدۂ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (عليه السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے“۔ (مشكاة كتاب النكاح، باب عشرة النساء ، بحواله ترمذي وقال الألباني، وهو حديث صحيح لشواهده)۔

التفاسير:

external-link copy
73 : 38

فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ ۟ۙ

چنانچہ تمام فرشتوں نے سجده کیا.(1) info

(1) یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے اسے تعظیماً سجدہ کیا۔ كُلُّهُمْ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فرشتہ بھی سجدہ کرنے میں پیچھے نہیں رہا۔ اس کے بعد أَجْمَعُونَ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ سجدہ بھی سب نے بیک وقت ہی کیا ہے۔ مختلف اوقات میں نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تاکید درتاکید تعمیم میں مبالغے کے لئے ہے۔ (فتح القدیر)۔

التفاسير:

external-link copy
74 : 38

اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ— اِسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ ۟

مگر ابلیس نے (نہ کیا)، اس نے تکبر کیا(1) اور وه تھا کافروں میں سے.(2) info

(1) اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا، بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کر دیا۔
(2) یہ کان صَارَ کے معنی میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 38

قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ؕ— اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ ۟

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجده کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا(1) تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے. info

(1) یہ بھی انسان کے شرف وعظمت کے اظہار ہی کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 38

قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ ؕ— خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ ۟

اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے.(1) info

(1) یعنی شیطان نے اپنے زعم فاسد میں یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر متجانس (ہم جنس یا قریب قریب ایک درجے میں) ہیں۔ ان میں سے کسی کو، دوسرے پر شرف کسی عارض (خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم (عليه السلام) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف وعظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کر دینا ہے، جبکہ مٹی اس کے برعکس انواع واقسام کی پیداوار کا موخذ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 38

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ ۟ۙۖ

ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا. info
التفاسير:

external-link copy
78 : 38

وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ ۟

اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت وپھٹکار ہے. info
التفاسير:

external-link copy
79 : 38

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۟

کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے. info
التفاسير:

external-link copy
80 : 38

قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ۟ۙ

(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے. info
التفاسير:

external-link copy
81 : 38

اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ۟

متعین وقت کے دن تک. info
التفاسير:

external-link copy
82 : 38

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ ۟ۙ

کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا. info
التفاسير:

external-link copy
83 : 38

اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ۟

بجز تیرے ان بندوں کے جو چیده اور پسندیده ہوں. info
التفاسير: