(1) یہ بیعت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتےہیں۔ یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لیے آتےہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض بیت معمور سے مراد خانہ کعبہ لیتے ہیں، جو عبادت کےلئے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔ معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔
(1) اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لیے بمنزلۂ چھت کے ہے۔ قرآن نے دوسرےمقام پر اسے (محفوظ چھت) کہا ہے۔ «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ» (سورة الأنبياء:32) بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
(1) مسجور کے معنی ہیں، بھڑکے ہوئے۔ بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہو گی، اس سے مردہ جسم زندہ ہوجائیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں، ان میں سے قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا: «وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ» (التكوير: 6) ”اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے“۔ امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے مَسْجُورٌ کے معنی مَمْلُوءٌ (بھرے ہوئے) کےلیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے، البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئےہیں، امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔
(1) مور کے معنی ہیں حرکت واضطراب۔ قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور کواکب وسیارگان کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہو گا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کےلیے ظرف ہے۔ یعنی یہ عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھرتھرائے گا اور پہاڑی اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔