قۇرئان كەرىم مەنىلىرىنىڭ تەرجىمىسى - ئۇردۇچە تەرجىمىسى - مۇھەممەد جوناكرى

طور

external-link copy
1 : 52

وَالطُّوْرِ ۟ۙ

قسم ہے طور کی.(1) info

(1) طُورٌ وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) اللہ سے ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا، بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اسی شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 52

وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ ۟ۙ

اور لکھی ہوئی کتاب کی.(1) info

(1) مَسْطُورٍ کے معنی ہیں۔ مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کا مصداق مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا وہ انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 52

فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ ۟ۙ

جو جھلی کے کھلے ہوئے ورق میں ہے.(1) info

(1) یہ متعلق ہےمَسْطُورٍ کے۔ رَقٍّ ، وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ مَنْشُورٍ بمعنی مَبْسُوطٍ، پھیلایا کھلا ہوا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 52

وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ ۟ۙ

اورآباد گھر کی.(1) info

(1) یہ بیعت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتےہیں۔ یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لیے آتےہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض بیت معمور سے مراد خانہ کعبہ لیتے ہیں، جو عبادت کےلئے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔ معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 52

وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ ۟ۙ

اور اونچی چھت کی.(1) info

(1) اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لیے بمنزلۂ چھت کے ہے۔ قرآن نے دوسرےمقام پر اسے (محفوظ چھت) کہا ہے۔ «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ» (سورة الأنبياء:32) بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 52

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ ۟ۙ

اور بھڑکائے ہوئے سمندر کی.(1) info

(1) مسجور کے معنی ہیں، بھڑکے ہوئے۔ بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہو گی، اس سے مردہ جسم زندہ ہوجائیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں، ان میں سے قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا: «وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ» (التكوير: 6) ”اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے“۔ امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے مَسْجُورٌ کے معنی مَمْلُوءٌ (بھرے ہوئے) کےلیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے، البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئےہیں، امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 52

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ۟ۙ

بیشک آپ کے رب کا عذاب ہو کر رہنے واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
8 : 52

مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ ۟ۙ

اسے کوئی روکنے واﻻ نہیں.(1) info

(1) یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے یعنی یہ تمام چیزیں، جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی مظہر ہیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب بھی یقیناً واقع ہو کررہے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے، اسے کوئی ٹالنے پر قادر نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 52

یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآءُ مَوْرًا ۟

جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا.(1) info

(1) مور کے معنی ہیں حرکت واضطراب۔ قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور کواکب وسیارگان کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہو گا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کےلیے ظرف ہے۔ یعنی یہ عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھرتھرائے گا اور پہاڑی اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 52

وَّتَسِیْرُ الْجِبَالُ سَیْرًا ۟ؕ

اور پہاڑ چلنے پھرنے لگیں گے. info
التفاسير:

external-link copy
11 : 52

فَوَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ ۟ۙ

اس دن جھٹلانے والوں کو (پوری) خرابی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
12 : 52

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ خَوْضٍ یَّلْعَبُوْنَ ۟ۘ

جو اپنی بیہوده گوئی میں اچھل کود کر رہے ہیں.(1) info

(1) یعنی اپنے کفر وباطل میں مصروف اور حق کی تکذیب واستہزا میں لگے ہوئے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 52

یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ۟ؕ

جس دن وه دھکے دے(1) دے کر آتش جہنم کی طرف ﻻئیں جائیں گے. info

(1) الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔

التفاسير:

external-link copy
14 : 52

هٰذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ۟

یہی وه آتش دوزخ ہے جسے تم جھوٹ بتلاتے تھے.(1) info

(1) یہ جہنم پر مقرر فرشتے (زبانیہ) انہیں کہیں گے۔

التفاسير: