(1) یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے، اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے۔ انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے، وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے، اسی لئے آسمان وزمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمدوتعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔
(2) یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلاً «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ» (سورة الزمر:74) «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا» (سورة الأعرا: 43) «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ» (فاطر: 34) وَغَيْرهَا مِنَ الآيَاتِ تاہم دنیا میں اللہ کی حمد وتعریف، عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی، جس سے انہیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔ (فتح القدیر)۔
(1) مثلاً بارش، خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔
(2) بارش، اولے، گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔
(3) یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔
(1) قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لازم تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی؟ وہ تو بہرصورت یقیناً آئے گی۔
(2) لا يَعْزُبُ، غائب اور پوشیدہ اور دور نہیں۔ یعنی جب آسمان وزمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کرکے دوبارہ تمہیں زندہ کردینا کیوں ناممکن ہوگا۔
(3) یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔
(1) یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی قیامت اس لئے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لئے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے، کیونکہ جزا کے لئے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے۔ اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک وبد دونوں یکساں ہیں۔ اور یہ بات عدل وانصاف کے قطعاً منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا۔ وَمَا رَبُّكَ بِظَلامٍ للْعَبِيدِ۔
- یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے اپنے پیغمبروں پر نازل کیں۔ مُعَاجِزِينَ، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہوں گے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کےبعد جب ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے آپ کئے دھرے کی جواب دہی کریں گے؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہوگا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو؟
(1) یہاں رویت سے مراد رویت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رویت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں۔ اہل علم سے مراد صحابہ کرام (رضي الله عنهم) ، یا مومنین اہل کتاب یا تمام ہی مومنین ہیں یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔
(2) یہ عطف ہےحق پر، یعنی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے۔ اور وہ راستہ کیا ہے؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔
(1) یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین کا آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔
(2) اس سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وسلم) ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے۔
(3) یعنی عجیب وغریب خبر، ناقابل فہم خبر۔
(4) یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے، تمہاری ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا، تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطا کردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے۔ یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی۔