(1) اس آیت میں هِيَ کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک وہ نشان زدہ کنکریلے پتھر ہیں جو ان پر برسائے گئے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع وہ بستیاں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جو شام اور مدینہ کے درمیان تھیں اور ظالمین سے مراد مشرکین مکہ اور دیگر مکذبین ہیں۔ مقصد ان کو ڈرانا ہے کہ تمہارا حشر بھی ویسا ہہی ہو سکتا ہے جس سے گزشتہ قومیں دو چار ہوئیں۔
(1) مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورۃ الاعراف، آیت 85 کا حاشیہ۔
(2) توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انہیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔
(3) یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالٰی تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔
(4) یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہا اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔
(1) انبیاء علیہم السلام کی دعوت دو اہم بنیادوں پر مشتمل ہوتی ہے (1)۔ حقوق اللہ کی ادائیگی (2)، حقوق العباد کی ادائیگی۔ اول الذکر کی طرف لفظ «اعْبُدُوا اللَّهَ» اور آخر الذکر کی جانب «وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ» (ھود:84) سے اشارہ کیا گیا اور اب تاکید کے طور پر انہیں انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول کا حکم دیا جا رہا ہے اور لوگوں کو چیزیں کم کر کے دینے سے منع کیا جا رہا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالٰی نے ایک پوری سورت میں اس جرم کی شناعت و قباحت اور اس کی اخروی سزا بیان فرمائی ہے۔«وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ ، الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (1) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ» ( سورة المطففين: 1۔3) ”مطففین کے لیے ہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں، تو کم کر کے دیتے ہیں“۔
(2) اللہ کی نافرمانی سے، بالخصوص جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو، جیسے یہاں ناپ تول کی کمی بیشی میں ہے، زمین میں یقیناً فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے انہیں منع کیا گیا۔
(1) «بَقِيَّةُ اللَّهِ» سے مراد جو ناپ تول میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر، دیانتداری کے ساتھ سودا دینے کے بعد حاصل ہو۔ یہ چونکہ حلال و طیب ہے اور خیرو برکت بھی اسی میں ہے، اس لئے اللہ کا بقیہ قرار دیا گیا ہے۔
(2) یعنی میں تمہیں صرف تبلیغ کر سکتا ہوں اور اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ لیکن برائیوں سے میں تمہیں روک دوں یا اس پر سزا دوں، یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، ان دونوں باتوں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔
(1) صَلاةٌ سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔
(2) اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰ ۃ و صدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔
(3) حضرت شعیب (عليه السلام) کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔
(1) رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر)
(2) یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔
(3) میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔
(4) یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لئے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔