(1) یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔
(2) یہ غالباً فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (عليه السلام) کوقتل کرنے سے منع کرتے تھے۔
(3) یہ فرعون کی دیدہ دلیری کااظہارہے کہ میں دیکھوں گا، اس کارب اسے کیسے بچاتا ہے،اسے پکار کر دیکھ لے۔ یارب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچالے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔
(4) یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی، تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث و تکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو گا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا۔ دراں حالیکہ فسادی وہ خودتھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔
(1) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کےعلم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنےکا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کے لیے دعا مانگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے ”اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهُمْ وَنعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ“ (مسند أحمد 4 /415) ”اے اللہ ! ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتےہیں“۔
(1) یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ (2) یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناًوہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
(3) اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(1) یعنی یہ اللہ کاتم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کاشکر ادا کرو ! اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔
(2) یہ فوجی اور لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
(3) فرعون نے اپنے دنیوی جاہ و جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (هود: 97)۔
(1) یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب پر ہم اڑے رہے، تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے۔
(2) یعنی اللہ نے جن کوبھی ہلاک کیا، ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب و مخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا، ورنہ وہ شفیق و رحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ گویا قوموں کی ہلاکت، یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنیٰ نہیں: از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جو از جو
(1) تَنَادِي کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو ”يَوْمَ التَّنَادِ“ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (الاعراف: 49-48) بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا، جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا، اس کی بدبختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا، بعض کہتےہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کوپکارا جائےگا، جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہنم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔
(1) یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے۔
(2) جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی اس پر چلا سکے۔