Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

Sayfa numarası:close

external-link copy
26 : 40

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّهٗ ۚؕ— اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ ۟

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں اور(1) اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے(2)، مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کردے.(3) info

(1) یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔
(2) یہ غالباً فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (عليه السلام) کوقتل کرنے سے منع کرتے تھے۔
(3) یہ فرعون کی دیدہ دلیری کااظہارہے کہ میں دیکھوں گا، اس کارب اسے کیسے بچاتا ہے،اسے پکار کر دیکھ لے۔ یارب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچالے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔
(4) یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی، تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث و تکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو گا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا۔ دراں حالیکہ فسادی وہ خودتھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 40

وَقَالَ مُوْسٰۤی اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ۟۠

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناه میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص (کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا.(1) info

(1) حضرت موسیٰ (عليه السلام) کےعلم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنےکا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کے لیے دعا مانگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے ”اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهُمْ وَنعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ“ (مسند أحمد 4 /415) ”اے اللہ ! ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتےہیں“۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 40

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ۖۗ— مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَكْتُمُ اِیْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَقَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ؕ— وَاِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗ ۚ— وَاِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ۟

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے(1) ، اگر وه جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وه سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وه تم سے وعده کر رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر آ پڑے گا(2)، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہیں.(3) info

(1) یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ (2) یہ اس نے بطور تنزل کے کہا، کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کی صداقت اور اس کی دعوت کی صحت تم پر واضح نہیں ہوئی، تب بھی عقل و دانش اور احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس سے تعرض نہ کیا جائے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا۔ اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقیناًوہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے، تم پران میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
(3) اس کا مطلب ہے کہ اگروہ جھوٹا ہوتا (جیساکہ تم باور کراتے ہو) تو اللہ تعالیٰ اسےدلائل و معجزات سے نہ نوازتا، جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا، تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 40

یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ ؗ— فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا ؕ— قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَمَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ ۟

اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب(1) ہو لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ گیا تو کون ہماری مدد کرے گا(2)؟ فرعون بوﻻ، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راه ہی بتلا رہا ہوں.(3) info

(1) یعنی یہ اللہ کاتم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کاشکر ادا کرو ! اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔
(2) یہ فوجی اور لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
(3) فرعون نے اپنے دنیوی جاہ و جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (هود: 97)۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 40

وَقَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِ ۟ۙ

اس مومن نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 40

مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِهِمْ ؕ— وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ۟

جیسے امت نو ح اور عاد وﺛمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا)(1) ، اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ﻇلم کرنا نہیں چاہتا.(2) info

(1) یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب پر ہم اڑے رہے، تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے۔
(2) یعنی اللہ نے جن کوبھی ہلاک کیا، ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب و مخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا، ورنہ وہ شفیق و رحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا۔ گویا قوموں کی ہلاکت، یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنیٰ نہیں: از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جو از جو

التفاسير:

external-link copy
32 : 40

وَیٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِ ۟ۙ

اور مجھے تم پر ہانک پکار کے دن کابھی ڈر ہے.(1) info

(1) تَنَادِي کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو ”يَوْمَ التَّنَادِ“ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (الاعراف: 49-48) بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا، جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا، اس کی بدبختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا، بعض کہتےہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کوپکارا جائےگا، جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہنم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 40

یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ ۚ— مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ۚ— وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ۟

جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے(1) ، تمہیں اللہ سے بچانے واﻻ کوئی نہ ہوگا اور جسے اللہ گمراه کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں.(2) info

(1) یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے۔
(2) جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی اس پر چلا سکے۔

التفاسير: