Kur'an-ı Kerim meal tercümesi - Urduca Tercüme - Muhammed Conakri

Sayfa numarası:close

external-link copy
141 : 4

١لَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ— فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْۤا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ۖؗ— وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ ۙ— قَالُوْۤا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؕ— فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ— وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا ۟۠

یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟(1) پس قیامت میں خود اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا(2) اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راه نہ دے گا۔(3) info

(1) یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پالیسی کے نتیجے میں حاصل ہواہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔
(2) یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کر لی، لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کرکے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ
(3) یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ (1) اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔ (2) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔ (3) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمان کی دولت وشوکت کا بالکل خاتمہ ہی ہو جائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں۔ ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (4) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ”یہ سب سے عمدہ معنی ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ“ (الشوری: 30) ”اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے“ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
142 : 4

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ۚ— وَاِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰی ۙ— یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟ؗۙ

بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے واﻻ ہے(1) اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں(2) صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں(3)، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں۔(4) info

(1) اس کی مختصر توضیح سورۂ بقرہ کے آغاز میں ہو چکی ہے۔
(2) نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی وہ کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشا اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے ”أَثْقَلُ الصَّلاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاةُ الْعِشَاءِ وَصَلاةُ الْفَجْرِ ...“ ( صحيح بخاري، مواقيت الصلاة- صحيح مسلم، كتاب المساجد) ”منافق پر عشا اور فجر کی نماز سب سے زیادہ بھاری ہے“۔ (3) یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے، تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔
(4) اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں ”أی لا يُصَلُّونَ إِلا صَلاةً قَلِيلَةً“ جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ”وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ“ (البقرۃ: 45) سے واضح ہے، حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتاہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد- موطأ كتاب القرآن)۔

التفاسير:

external-link copy
143 : 4

مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ ۖۗ— لَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ وَلَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ ؕ— وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا ۟

وه درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں، نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح طور پر ان کی طرف(1) اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تو تو اس کے لئے کوئی راه نہ پائے گا۔ info

(1) کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہراً وباطناً وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ۔ ظاہر ان کا مسلمانوں کے ساتھ ہے تو باطن کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر وایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب ہی کا شکار رہتے تھے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے، (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے، کبھی دوسرے کی طرف“۔ (صحيح مسلم، كتاب المنافقين)۔

التفاسير:

external-link copy
144 : 4

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؕ— اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ۟

اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی صاف حجت قائم کر لو۔(1) info

(1) یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ وہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معصیت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے)۔

التفاسير:

external-link copy
145 : 4

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ— وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًا ۟ۙ

منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے(1) ، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے۔ info

(1) جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ”هَاوِيَة“ کہلاتا ہے۔أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا، منافقین کی مذکورہ عادات وصفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔

التفاسير:

external-link copy
146 : 4

اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَاَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ؕ— وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ۟

ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں(1) ، اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔ info

(1) یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا وہ جہنم میں جانے کے بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
147 : 4

مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا ۟

اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو(1) ، اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے واﻻ اور پورا علم رکھنے واﻻ ہے۔(2) info

(1) شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید وربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان ہے۔
(2) یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا سے نوازے گا۔

التفاسير: