(1) یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہوں گے جو ہدایت کے طالب ہوں گے، جو لوگ اپنےدل ودماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انہیں کس طرح سیدھی راہ پر لگاسکتا ہے؟ ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہوسکتے، درآں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔
(1) یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لیےکی گئی ہےکہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکیوں کے لیے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لیے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔
(2) یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔
(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھااور سردی سے بچاؤ کے لیے آگ کی ضرورت تھی۔
(1) دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ ایک سرسبز درخت سے آگ کے شعلےبلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فِي النَّارِ میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالی اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَهَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب، (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ”اگر اپنی ذات کو بےنقاب کردے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے“۔ (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إن الله لا ينام..۔ تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوى ابن تيمية ج 5 ص459۔ 464)۔
(2) یہاں اللہ کی تنزیہ وتقدیس کا مطلب یہ ہے کہ اس ندائے غیبی سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس آگ یا درخت میں اللہ حلول کئے ہوئے ہے، جس طرح کہ بہت سے مشرک سمجھتے ہیں بلکہ یہ مشاہدۂ حق کی ایک صورت ہے جس سے نبوت کے آغاز میں انبیاء علیہم السلام کو بالعموم سرفراز کیا جاتا ہے۔ کھبی فرشتے کےذریعے سے اور کبھی خود اللہ تعالیٰ اپنی تجلی اور ہمکلامی سے جیسے یہاں موسیٰ (عليه السلام) کے ساتھ معاملہ پیش آیا۔
(1) اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ (عليه السلام) اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے۔ دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔
(1) یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرمالے۔
(2) یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کر لیتا ہوں۔
(1) یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انہیں دیاگیا۔
(2) فِي تِسْعِ آيَاتٍ یعنی یہ دو معجزے ان 9 نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان 9 نشانیوں کی تفصیل کے لیے دیکھئے، سورۂ بنی اسرائیل، آیت۔ 101 کاحاشیہ۔