పవిత్ర ఖురాన్ యొక్క భావార్థాల అనువాదం - ఉర్దూ అనువాదం - ముహమ్మద్ జూనాగడి

పేజీ నెంబరు:close

external-link copy
179 : 7

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۖؗ— لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا ؗ— وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا ؗ— وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا ؕ— اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۟

اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں(1) ، جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیاده گمراه ہیں(2)۔ یہی لوگ غافل ہیں۔ info

(1) اس کا تعلق تقدیر سے ہے ۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جاکر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے ۔ یہاں انہی دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتا دیا گیا کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اسی انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔
(2) یعنی دل، آنکھ، کان یہ چیز یں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے، اس کی آیات کامشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شخص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا، وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
180 : 7

وَلِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْهُ بِهَا ۪— وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىِٕهٖ ؕ— سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو(1) اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں(2)، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔ info

(1) ”حُسْنَى“ أَحْسَنُ کی تانیث ہے ۔ اللہ کے ان اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت وجلالت اور اس کی قدرت وطاقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث میں ان کی تعداد 99 (ایک کم سو) بتائی گئی ۔ اور فرمایا کہ ”جو ان کو شمار کرے گا، جنت میں داخل ہوگا، اللہ تعالیٰ طاق ہے طاق کو پسند فرماتا ہے“۔ ( بخاري، كتاب الدعوات، باب لله مائة اسم غير واحد- مسلم، كتاب الذكر، باب في أسماء الله تعالى وفضل من أحصاها)، شمار کرنے کا مطلب ہے: ان پر ایمان لانا، یا ان کو گننا اور انہیں ایک ایک کرکے بطور تبرک اخلاص کے ساتھ پڑھنا، یا ان کا حفظ، ان کے معانی کا جاننا اور ان سے اپنے کو متصف کرنا۔ ( مرقاۂ شرح مشکوٰۂ ، کتاب الدعوات، باب اسماء اللہ تعالیٰ ) بعض روایات میں ان 99ناموں کو ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں اور علما نے انہیں مدرج قرار دیا ہے یعنی راویوں کا اضافہ۔ وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی حدیث کا حصہ نہیں ہیں۔ نیز علما نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد 99 میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔
(2) ”الحاد“ کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا۔ اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک طرف بنائی جاتی ہے۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد (کج روی) کی تین صورتیں ہیں۔ (1)۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کر دی جائے ۔ جیسے مشرکین نے کیا ۔ مثلاً اللہ کے ذاتی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی ناموں عَزِيزٌ سے عُزَّى ٰبنا لیا۔ (2)۔ یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافے کر لینا، جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔ (3)۔ یا اس کے ناموں میں کمی کر دی جائے مثلاً اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے۔ (فتح القدیر) اللہ کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یا تعطیل یا تشبیہ سے کام لیا جائے (ایسر التفاسیر) جس طرح معتزلہ، معطلہ اور مشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سب سے بچ کر رہو۔

التفاسير:

external-link copy
181 : 7

وَمِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ یَعْدِلُوْنَ ۟۠

اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اس کے موافق انصاف بھی کرتی ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
182 : 7

وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟ۚ

اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جارہے ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
183 : 7

وَاُمْلِیْ لَهُمْ ؕ— اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ ۟

اور ان کو مہلت دیتا ہوں بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔(1) info

(1) یہ وہی استدراج وامہال ہے جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ افراد اور قوموں کو دیتا ہے۔ پھر جب اس کی مشیت مؤاخذہ کرنے کی ہوتی ہے تو کوئی اس سے بچانے پر قادر نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کی تدبیر بڑی مضبوط ہے۔

التفاسير:

external-link copy
184 : 7

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا ٚ— مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ؕ— اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۟

کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ ان کے ساتھی کو ذرا بھی جنون نہیں وه تو صرف ایک صاف صاف ڈرانے والے ہیں۔(1) info

(1) ”صَاحِبٌ“ سے مراد نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی ذات گرامی ہے جن کی بابت مشرکین کبھی ساحر اور کبھی مجنون (نعوذ باللہ) کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے عدم تفکر کا نتیجہ ہے۔ وہ تو ہمارا پیغامبر ہے جو ہمارے احکام پہنچانے والا اور ان سے غفلت واعراض کرنے والوں کو ڈرانے والا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
185 : 7

اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ۙ— وَّاَنْ عَسٰۤی اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ— فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ ۟

اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آ پہنچی ہو(1) ۔ پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان ﻻئیں گے؟(2) info

(1) مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقیناً یہ اللہ پر ایمان لے آئیں، اس کے رسول کی تصدیق اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں اور انہوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں، انہیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انہیں موت اس حال میں آجائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔
(2) ”حَدِيثٌ“ سے مراد یہاں قرآن کریم ہے ۔ یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) کے انذار وتہدید اور قرآ ن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز اور کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان لائیں؟

التفاسير:

external-link copy
186 : 7

مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ ؕ— وَیَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ ۟

جس کو اللہ تعالیٰ گمراه کر دے اس کو کوئی راه پر نہیں ﻻ سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
187 : 7

یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَا ؕ— قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ ۚ— لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ؔؕۘ— ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ؕ— یَسْـَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا ؕ— قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

یہ لوگ آپ سے قیامت(1) کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟(2) آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے(3)، اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ﻇاہر نہ کرے گا۔ وه آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادﺛہ) ہوگا(4) وه تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وه آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں(5)۔ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ info

(1) ”سَاعَةٌ“ کے معنی گھڑی (لمحہ یا پل) کے ہیں ۔ قیامت کو ساعۃ اس لیے کہا گا ہے کہ یہ اچانک اس طرح آجائے گی کہ پل بھر میں ساری کائنات درہم برہم ہو جائے گی یا سرعت حساب کے اعتبار سے قیامت کی گھڑی کو ساعۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(2) ”أَرْسَى“ ”يُرْسِي“ کے معنی اثبات ووقوع کے ہیں، یعنی کب یہ قیامت ثابت یا واقع ہوگی؟
(3) یعنی اس کا یقینی علم نہ کسی فرشتے کو ہے نہ کسی نبی کو، اللہ کے سوا اس کا علم کسی کے پاس نہیں، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔
(4) اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ۔ اس کا علم آسمان اور زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ مخفی ہے اور مخفی چیز دلوں پر بھاری ہوتی ہے ۔
(5) حَفِيٌّ کہتے ہیں پیچھے پڑ کر سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو ۔ یعنی یہ آپ (صلى الله عليه وسلم) سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑ کر اس کی بابت ضروری علم حاصل کر رکھا ہے۔

التفاسير: