పవిత్ర ఖురాన్ యొక్క భావార్థాల అనువాదం - ఉర్దూ అనువాదం - ముహమ్మద్ జూనాగడి

పేజీ నెంబరు:close

external-link copy
150 : 7

وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤی اِلٰی قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ۙ— قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ بَعْدِیْ ۚ— اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ ۚ— وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِ ؕ— قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَكَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ۖؗ— فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۟

اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں(1) اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے!(2) ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں(3) تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ(4) اور مجھ کو ان ﻇالموں کے ذیل میں مت شمار کرو۔(5) info

(1) جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے آکر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضب ناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی، جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں، جسے قرآن نے ”ڈال دیں“ سے تعبیر کیا ہے ۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس میں سوء ادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بےادبی نہیں تھا، بلکہ دینی غیرت وحمیّت میں بے خود ہوکر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سرزد ہوا۔
(2) حضرت ہارون وموسیٰ علیہما السلام آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون (عليه السلام) نے (ماں جائے) اس لیے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔
(3) حضرت ہارون (عليه السلام) نے یہ اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا، بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ وہ انہیں قتل تک کر دینے پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔
(4) میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہوں گے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔
(5) اور ویسے بھی عقیدہ وعمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے؟ میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لیے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہوسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اپنے اور اپنے بھائی ہارون (عليه السلام) کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا مانگی۔

التفاسير:

external-link copy
151 : 7

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ۖؗ— وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ۟۠

موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیاده رحم کرنے واﻻ ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
152 : 7

اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ— وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ ۟

بےشک جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیوی زندگی ہی میں پڑے گی(1) اور ہم افترا پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔(2) info

(1) اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لیے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت ورسوائی کے وہ مستحق قرار پائے۔
(2) اور یہ سزا ان ہی کے لیے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
153 : 7

وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِهَا وَاٰمَنُوْۤا ؗ— اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

اور جن لوگوں نے گناه کے کام کئے پھر وه ان کے بعد توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناه معاف کر دینے واﻻ، رحمت کرنے واﻻ ہے۔(1) info

(1) ہاں جنہوں نے توبہ کرلی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے ۔ معلوم ہوا کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے بشرطیکہ خالص توبہ ہو۔

التفاسير:

external-link copy
154 : 7

وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ۖۚ— وَفِیْ نُسْخَتِهَا هُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ ۟

اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرد ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں(1) ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی۔(2) info

(1) ”نُسْخَةٌ“ فُعْلَةٌ کے وزن پر بمعنی مفعول ہے ۔ یہ اس اصل کو بھی کہتے ہیں جس سے نقل کیا جائے اور نقل شدہ کو بھی نسخہ کہہ دیا جاتا ہے۔ یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی، یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیاں زور سے پھینکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کرکے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم صحیح بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے ان ”تختیوں کو اٹھا لیا“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں ۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم ”مضامین“ ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے ۔
(2) تورات کو بھی، قرآن کریم کی طرح، انہی لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمۂ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
155 : 7

وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا ۚ— فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ ؕ— اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا ۚ— اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ؕ— تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَتَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ ؕ— اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ ۟

اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لیے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا(1) تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار! اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم میں سے چند بے وقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیاده اچھا ہے۔(2) info

(1) ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے ۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کر دیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے کہا۔
(2) بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں، اسے نہیں مانیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے ۔ وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے ہمکلام ہوا جسے ان لوگوں نے بھی سنا لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کر دیا کہ ہم تو جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ اور معذرت کے لیے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جاکر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہی ہیں کہ جنہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں اس سے منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لیے چنا گیا تھا، وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ”یا اللہ، ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہیں کیا اور نہ آئندہ وہ کسی کو عطا کرنا “۔ اللہ تعالیٰ کو یہ دعا پسند نہیں آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کر دیئے گئے ۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ آیت 56 میں آیا ہے ۔ جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے اور یہاں رَجْفَةٌ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آئے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ ۔ بہرحال حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی اس دعا والتجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا ۔

التفاسير: